کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 526
اس کی حرمت کوجانتا ہو۔توپھر ان لوگوں کے بارے میں کیا کہاجائے گا جن سے کوئی صغیرہ گناہ ہوا ہو ‘ یا انہوں نے کسی تاویل کی بنا پر کوئی کام کیا ہو۔اور پھر بعد میں اس کے لیے خطاء واضح ہوئی ہو؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جن امور کا انکار کیا جاتا تھا؛ جب آپ کے لیے واضح ہوگیا کہ واقعی یہ کام برے ہیں تو آپ نے ان سے توبہ کرلی تھی۔یہ آپ کی سیرت میں مشہور و معروف ہے۔ ایسے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بصرہ کی طرف کوچ کرنے پر ندامت اختیار کی۔اور جب آپ اپنے اس خروج کا ذکر کرتیں تو اس قدر روتیں کہ آپ کی اوڑھنی تر ہوجاتی۔ایسے ہی حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے نصرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو تفریط واقع ہوئی ؛ اس پر آپ بہت ہی نادم تھے۔ زبیر رضی اللہ عنہ جنگ جمل پر نادم تھے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قتال کے علاوہ اپنے کئی ایسے امور پر نادم تھے۔ آپ کہا کرتے تھے: لقد عجزت عجزۃ لا أعتذِر ....سوف أکِیس بعدہا وأستمِر وأجمع الرأی الشتِیت المنتشِر آپ صفین کی راتوں کے بارے میں فرمایا کرتے تھے : ’’اللہ ہی کے لیے اس مقام کی بھلائی ہے جس پر عبداللہ بن عمر اور سعد بن مالک رضی اللہ عنہم ہیں ۔اگر وہ مقام نیکی تو پھر اس کا اجر بہت زیادہ ہے ۔ اور اگر گناہ ہے تو ا س کا خطرہ بہت کم ہے ۔‘‘ آپ فرمایا کرتے تھے : ’’ اے حسن ! اے حسن ! تیرے باپ کا یہ خیال نہیں تھا کہ معاملہ یہاں تک پہنچے گا۔ اور تیرے باپ کویہ بات پسند تھی کہ وہ اس دن سے بیس سال پہلے مر گیا ہوتا ۔‘‘ جب آپ صفین سے واپس پلٹے تو آپ کی رائے بدل چکی تھی ۔ آپ فرمایا کرتے تھے: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو برا نہ سمجھو؛ اگر تم اس امارت کوختم کردوگے توتم دیکھوگے کہ کندھوں سے سر اڑرہے ہیں ۔‘‘ یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دو یا تین اسناد کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ اورآخری عمر میں آپ سے ان احوال کی کراہت تواتر کے ساتھ منقول ہے۔یہ تمام احوال ایسے تھے کہ اگر آپ کواس معاملے کا پہلے سے اندازہ ہوتا تو آپ نے جوکچھ کیا وہ ہر گز نہ کرتے۔ خلاصہ کلام! ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر ایک کی توبہ سے آگاہ ہوں ۔لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ توبہ ہر انسان کے لیے مشروع ہے۔انبیاء کرام کے لیے بھی اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی۔اور یہ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی انسان کو کسی ایسے گناہ میں مبتلا کرتے ہیں جس سے توبہ کی جائے تو پھر توبہ کی وجہ سے اپنے بندے کا مقام و درجہ بھی بلند کرتے ہیں ۔ مقصود خاتمہ کا کمال ہے ابتداء کا نقص نہیں ۔بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتے ہیں ۔ اورتوبہ کی وجہ سے گناہوں کونیکیوں سے بدل دیتے ہیں ۔ گناہ کے ساتھ توبہ صاحب گناہ کے لیے عبودیت میں خشوع ؛تضرع اور دعاء وغیرہ دیگر ان امور کو واجب کرتی ہے