کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 520
کے اساتذہ میں سے تھے۔ آپ سے پوچھا گیا : اللہ تعالیٰ نے آپ سے کیا سلوک کیا؟ تو فرمانے لگے: ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور نمازوں کے اوقات کی پابندی کی وجہ سے میری مغفرت کردی۔ شیعان علی نے دوسری جانب سخت غلو اختیار کیا۔ یہاں تک کہ وہ ہمیشہ کے لیے عصر کو اس کے وقت سے پہلے ظہر کی نماز کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں ۔ اور عشاء کو اس کے وقت سے پہلے خاص مغرب کے وقت میں پڑھتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ کے لیے دونوں نمازوں کو پہلے وقت میں جمع اور تقدیم کے ساتھ پڑھتے ہیں ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول سنت متواترہ کے خلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اسباب کی وجہ سے نمازوں کو جمع کیا کرتے تھے۔ خاص کر جب نمازوں کو پہلے وقت میں ادا کرنا ہوتا۔ ائمہ کرام سے جو تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ وہ یہ ہے کہ آپ نے عرفات میں ایسے کیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات پر آپ نے جو ایسے کیا ہے ؛ اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن اس میں کوئی خلاف نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا نہیں کیا کرتے تھے؛ نہ ہی سفر میں اور نہ ہی حضر میں ۔بلکہ حجۃ الوداع میں بھی آپ نے صرف عرفات اور مزدلفہ میں نمازوں کو جمع کیا ہے۔ لیکن بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے غزوہ تبوک میں بھی نمازوں کو جمع کیا تھا۔ اور یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ آپ نے مدینہ میں بھی نمازیں جمع کی تھیں ۔ لیکن یہ نادر ہے اور سبب کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔ غالب طور پر آپ جمع نہیں کیا کرتے تھے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ کے لیے دونمازوں کو جمع کرکے پڑھا جائے۔ وہ لوگ تو ظہر کی نماز کو عصر تک مؤخر کردیتے تھے۔یہ اس سے بہتر ہے کہ عصر کی نماز میں تقدیم کرکے اسے ظہر کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمع تاخیر جمع تقدیم سے بہتر ہے۔ اس لیے کہ نماز اگر کوئی بھول جائے یا سویا رہے تو وہ بھی تو وقت گزرنے کے بعد پڑھتے ہیں ۔ جب کہ زوال سے قبل کسی بھی صورت میں نہیں پڑھی جاسکتی ۔ ایسے ہی آپ دیکھیں گے کہ ان لوگوں کی بدعات شیعان عثمان کی بدعات سے زیادہ بری ہیں ۔ پرانے شیعہ میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماسے تعرض کرتا ہو۔بلکہ یہ سبھی لوگ حضرات شیخین سے محبت کا دم بھرتے؛ ان کی بزرگی و عظمت کے بیان میں رطب اللسان رہتے تھے۔ اور ان میں سے کسی ایک کے متعلق بھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر کہا ہو۔ جیساکہ ان خوارج نے آپ کو کافر کہا تھا جو آپ کے ساتھیوں میں سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ ان میں سے جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ظلم و تعدی کے مرتکب ہوتے ہیں ان کی غایت یہ ہوسکتی ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ ظالم ہیں ۔ اوروہ یہ کہتے تھے کہ آپ خلفائے راشدین میں سے نہیں ہیں ۔ اور ایسی بعض چیزیں روایت کرتے تھے کہ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر تعاون کیا ‘ اور آپ کو قتل کرنے کا مشورہ دیا؛ اور وہ اندرہی اندر حضرت عثمان کے قتل میں شریک اور اس پر راضی تھے۔ [حقیقت یہ ہے کہ ] یہ تمام باتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر کھلا ہوا بھیانک جھوٹ ہیں ۔ آپ نے قسم أٹھا کر ارشاد فرمایا تھا۔۔اور آپ اپنی اس قسم میں بالکل صادق اور امین تھے۔ آپ نے فرمایا تھا: میں نے عثمان کو قتل نہیں کیا؛ اور نہ ہی آپ کو قتل کرنے کا مشورہ دیا؛ اور نہ ہی اس قتل پر راضی ہوا۔ اور آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر لعنت کیا کرتے تھے۔