کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 514
بھی فائدہ نہ ہوگا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے انسان کے متعلق قبر میں امتحان نہیں ہوگا۔
یہاں پر یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منکرات کے بارے میں جو جواب یا عذر پیش کیا جائے گا اس سے بڑا عذر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاں موجود ہے ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت اور و لایت کے لیے لوگوں سے جنگ کی جس میں خلق خدا کی بہت بڑی تعداد قتل ہوئی۔آپ کی خلافت کے دوران مسلمانوں کوکوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا ۔ نہ ہی کفار سے جہاد جاری رہا؛ اور نہ ہی مزید کوئی شہر فتح ہوا۔اورنہ ہی مسلمانوں کو کوئی بڑی خیر نصیب ہوئی۔اور آپ نے اپنے اقارب میں سے کئی لوگوں کووالی یا گورنر بنایا۔ اقارب کو ولایات پر مامور کرنے کا اقدام مشترکہ ہے ۔ بس اتنا فرق ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نائبین بہت ہی اطاعت گزار تھے۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نائبین اطاعت سے بہت دور اور شر کے زیادہ قریب تھے۔
جب کہ اموال کے تقسیم کرنے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسے ہی متأول تھے جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ لوگوں کا خون بہانے میں ۔ حالانکہ خون کا معاملہ مال کی نسبت زیادہ سخت اور خطرناک ہوتا ہے ۔
دوسری بات: ....ان سے کہا جائے گا کہ: جس نص کا آپ دعوی کرتے ہیں ؛ تمہارا آپس میں اس نص کے بارے میں اتنا اختلاف ہے جس سے وجوباً علم ضروری حاصل ہوتا ہے کہ یہ نص تمہارے ہاں قابل اعتماد نہیں ہے ۔ بلکہ تم میں سے ہر ایک گروہ جیسے چاہتا ہے ویسی روایات گھڑ لیتا ہے ۔
جمہور مسلمین کہتے ہیں : ہم یقینی ہی نہیں بلکہ ضروری طور پر جانتے ہیں کہ یہ نصوص جھوٹی ہیں ۔یہ بات ہم نے کئی جگہ پر واضح کی ہے۔ [یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ جو الزامات لگائے جارہے ہیں سب جھوٹ ہیں ]۔
تیسری بات:....حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حجت دوسرے لوگوں پر غالب ہی رہے گی؛ اس لیے کہ آپ کے متعلق یہ عذر بھی صحیح ہے کہ بنو امیہ کو عہدہ ہائے جلیلہ عطا کرنے میں ان کے سامنے اسوۂ نبوی موجود تھا۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان لوگوں نے بھی امویوں کوعہدوں پر تعینات کیا جن پر قرابت کا الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا؛ ان میں حضرت ابو بکر صدیق اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہمابھی شامل ہیں ۔عرب قبائل میں سے کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں جس میں بنو عبد الشمس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال کی تعداد زیادہ ہو۔اس کی وجہ ہے کہ:
۱۔ بنو عبد شمس تعداد میں زیادہ تھے۔
۲۔ ان میں سیادت و قیات اور شرف کا عنصر موجود تھا۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے غلبہ اور عزت کے دور میں :
۱۔ عتاب بن اُسیدبن ابو العیص بن امیہ اموی رضی اللہ عنہ کو حاکم مکہ مقرر کیا؛ جو کہ روئے زمین کا سب سے محترم گوشہ ہے۔[1]
[1] سنن نسائی، کتاب الاذان، باب کیف الاذان(ح:۶۳۳)، سنن ابن ماجۃ۔ کتاب الاذان۔ باب الترجیع فی الاذان (ح: ۷۰۸) و کتاب التجارات، باب النھی عن بیع ما لیس عندک(ح:۲۱۸۹)