کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 509
کے بارے میں یہ گواہی رد نہیں کی جاسکتی ۔اسی طرح دیگر احکام میں بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’’ تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کے لیے ہو۔‘‘[1]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’کسی بھی ہبہ کرنے والے کو اپنے ہبہ میں رجوع کرنے کا اختیار نہیں سوائے والدکے ؛ وہ اپنے بیٹے کو کئے گئے ہبہ میں رجوع کرسکتا ہے ۔‘‘[2]
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ کی شان میں شیعہ کا غلو:
اگر شیعہ کہے کہ : ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نص کی وجہ سے ایسا کیا ہے۔‘‘
تو اس کا جواب یہ ہے کہ : اولاً: ہمارا اعتقاد ہے کہ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد ہیں ایسے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ راشد ہیں ۔ لیکن اس سے قبل کہ ہم ان میں سے ہر ایک کے اعمال و افعال پر اس کی دلیل کو جانیں ؛ یہ جاننا ضروری ہے کہ[ایسے مسائل میں بحث کر نے سے]جو تہمتیں اور بدگمانیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پیدا ہوتی ہیں وہ ان تہمتوں سے بہت بڑھ کر ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق پیدا ہوتی ہیں ۔
اگر کوئی یہ کہے کہ :’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس [اپنے افعال و اعمال پر] دلیل وحجت موجود ہے ۔‘‘
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ معصوم ہونے کے باوجود اس اقارب نوازی کا ارتکاب کر سکتے ہیں اور کسی شخص کو بنا برعصمت آپ پر حرف گیری کی مجال نہیں ہے۔ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدافعت اس دعویٰ سے ممکن ہے کہ آپ ایک مجتہد تھے۔ لہٰذا یہ امور ان سے اجتہادی غلطی کی بنا پر صادر ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ دعویٰ عقل و نقل سے زیادہ میل کھاتا ہے۔
شیعہ کی بڑی مشکل یہ ہے کہ : جب ایسے اشخاص کا تذکرہ کرتے ہیں جن میں سے بعض لوگ صحیح منقول اور صریح معقول دلائل کی روشنی میں دوسرے بعض افراد سے افضل و اکمل ہوتے ہیں ؛ مگر یہ لوگ فاضل کو قابل مذمت ٹھہراتے ہوئے اس پر قدح اور طعن کرنا شروع کردیتے ہیں ؛ اور مفضول کومعصوم اور قابل مدح و تعریف ٹھہراتے ہیں ۔ ان کا یہ فعل
[1] [رواہ ابن ماجۃ ۲؍۷۶۹ ؛ کتاب التِجاراتِ، باب ما لِلرجلِ مِن مال ولدِہِ) وجاء فِی التعلِیقِ: فِی الزوائِدِ: إِسنادہ صحِیح ورِجالہ ثِقات علی شرطِ البخارِیِ، أوورد الہیثمِی الحدِیث فِی ِکتابِ البیوعِ فِی بابِ مالِ الولدِ4؍154 ؛ مِن عِدۃِ طرق وبِألفاظ متقارِب وتکلم علیہِ، وقال السیوطِی فِی الجامِعِ الصغِیرِ عنِ الحدِیثِ: ِإن ابن ماجہ رواہ عن جابِر، وِإن الطبرانِی رواہ عن سمرۃ وابنِ مسعود، وصحح الألبانِی الحدِیث فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ، 2؍25 وتکلم کلاما مفصلا علی طرقِہِ وألفاظِہِ فِی إِرواِ الغلِیلِ 3؍323 ۔ 330 رقم 838۔
[2] فِی سننِ أبِی داؤد 3؍394 ؛ِ کتاب البیوعِ والإِجاراتِ، باب الرجوعِ فِی الہِبۃ؛ سنن الترمذی 3؍299 ؛ کتاب الولائِ والہِبۃِ، باب ما جاء فِی کراہِیۃِ الرجوعِ فِی الہِبۃِ وقال التِرمِذِی: وہذا حدِیث حسن صحِیح، سننِ النسائِیِ 6؍222؛ ِکتاب الہِبۃِ، باب رجوعِ الوالِدِ فِیما یعطِی ولدہ ، المسندِ ط۔ المعارِفِ الأرقامِ 2119، 4810، 5493 وصحح أحمد شاکِر رحِمہ اللّٰہ الحدِیث۔