کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 507
اور ابوذر رضی اللہ عنہم ۔‘‘ ’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شرعی حدود کی پروا نہیں کی جاتی تھی۔ چنانچہ امیر المؤمنین کے آزاد کردہ غلام ہر مزان کے قصاص میں عبید اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کو قتل نہیں کیا تھا؛ حالانکہ وہ[ہرمزان] اسلام لا چکا تھا۔امیر المؤمنین نے عبید اللہ کو قصاص کے لیے طلب کیا تھا۔ مگروہ بھاگ کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا۔ ولید رضی اللہ عنہ جب شراب نوشی کا مرتکب ہوا تو عثمان رضی اللہ عنہ اس پر حد نہیں لگانا چاہتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حد شرعی قائم کی اور فرمایا :’’ میری موجودگی میں شرعی حدود کو پامال نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ جمعہ کے دن ایک اذان کا اضافہ کیا جو کہ بدعت ہے۔اور اسے آج تک سنت سمجھا جاتا ہے۔ تمام مسلمانوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی اور اس کے کاموں پر تنقید کی۔یہاں تک کہ ان کو قتل کردیا گیا۔لوگ آپ کے کرتوتوں پر عیب جوئی کیا کرتے تھے۔ لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا تھا آپ نے بدر میں شرکت نہ کی۔ اور غزوۂ احد کے دن بھاگ گئے۔ بیعت الرضوان میں بھی شامل نہ ہوئے۔ [1]خلاصہ یہ کہ ایسے واقعات لاتعداد ہیں ۔‘‘(شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا)
[1] سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بیعت الرضوان میں اس لیے شرکت نہ کر سکے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں قریش مکہ کی طرف سفیر بنا کر بھیجا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارت کا منصب پہلے سیدنا عمر کو پیش کیا انھوں نے کہا اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مکہ میں میرے قبیلہ کا ایک آدمی بھی نہیں جو میری حفاظت کر سکے۔ میں آپ کو ایک شخص بتاتا ہوں جو اس مقصد کے لیے مجھ سے زیادہ موزوں ہے....وہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہے‘‘ ....چنانچہ آپ نے سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کو بلا کر اس خدمت پر مامور کیا۔ اگر مسلمانوں میں کوئی اور شخص ہوتا جو وادی مکہ میں زیادہ پر قوت و شوکت ہوتا تو آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جگہ اسے اس کام پر مامور فرماتے۔(صحیح بخاری ، حوالہ سابق سیرۃ ابن ہشام (ص: ۵۰۲۔ ۵۰۳) تاریخ اسلام کی اس اوّلین سفارت کے جرم میں عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں چند روز محبوس رہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے ہیں ۔ نبی کریم نے سیدنا عثمان کا قصاص لینے کے لیے صحابہ سے بیعت رضو ان لی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیعت رضوان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کا بین ثبوت ہے۔ عظمت عثمان رضی اللہ عنہ کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ آپ کا انتقام لینے کے لیے اسلام کی پوری قوت و شوکت سیدالاوّلین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر قیادت اٹھ کھڑی ہوئی۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس داماد سے کتنی گہری الفت و محبت رکھتے تھے۔ جب سب صحابہ عقد بیعت کے لیے جمع ہو گئے تو اس آخری لمحہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوپتہ چلا کہ عثمان رضی اللہ عنہ بخیر و عافیت ہیں ۔ تاہم آپ نے بیعت کے معاملہ کو تشنۂ تکمیل چھوڑنا مناسب خیال نہ کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو دہرا شرف یہ حاصل ہوا کہ بیعت کرتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کی جگہ کام کیا۔ چنانچہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا اور کہا:’’ یہ عثمان کا ہاتھ ہے‘‘ پھر اسے دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا:’’ یہ بیعت عثمان کے لیے ہے۔‘‘ صحیح بخاری، حوالہ سابق۔ مقام افسوس ہے کہ شیعہ تاریخ اسلام کی اس عظیم مدح و ثنا کو نقص و عیب پر محمول کرتے ہیں ، رفض کی اصل حقیقت یہی ہے، اگر وہ یوں نہ کرتے تو رافضی نہ کہلاتے۔یہ بیعت اتنی اہم تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر قیادت اسلام کی پوری قوت اٹھ کھڑی ہوئی اور اسی سابقہ بیعت نے صحابہ کرام کو شہادت عثمان رضی اللہ عنہ پر قصاص کا مطالبہ کرنے پر مجبور کردیا ورنہ انھیں سیدنا علی سے کوئی عناد نہ تھا۔