کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 506
نوازتے اور انہیں دوسروں پر ترجیح دیتے تھے۔ قریش میں ان کے چار داماد تھے، انہیں چار لاکھ دینار عطا کیے ۔[1]مروان کو دس لاکھ دینار دیئے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مورد طعن بناتے اور ان کی تکفیر کیا کرتے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو اس قدر پٹوایا کہ ان کی موت واقع ہو گئی ۔حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو اس قدر پٹوایا تھا کہ ان کو فتق کا عارضہ لاحق ہو گیاتھا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’ عمار میرا نور نظر ہے، اسے ایسی باغی جماعت قتل کرے گی جن کو اللہ تعالیٰ میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔‘‘ عمار رضی اللہ عنہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر طعن کیا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چچا حَکَم اور اس کے بیٹے مروان کو مدینہ سے نکال دیا تھا۔وہ عہدرسالت مآب میں اور عہد ِصدیقی و فاروقی میں مدینہ بدر ہی رہا۔ پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ حاکم بنے تو آپ نے پھراسے مدینہ میں بلا لیا۔ اور مروان کو اپنا مشیر اور کاتب بنالیا ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ ﴾ [المجادلۃ ۲۲] ’’اللہ تعالیٰ پر اور روزِقیامت پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی رکھنے والے نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں ۔‘‘ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو انتہائی سخت مار پیٹ کر ربذہ کی طرف نکال دیا تھا۔[2] حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ اس کرۂ ارضی کے اوپر اور فلک نیلگوں کے نیچے ابوذر سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ وہ میرے صحابہ میں سے چار افراد سے محبت کرتا ہے‘ اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بھی ان سے محبت کروں ۔‘‘ آپ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا:’’ ان چاروں کے سردار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ؛ اور ان کے علاوہ سلیمان ‘ مقداد
[1] ۳۲۳و ۳۲۶، نیز ۵؍۱۸۹)۔ عراک کی مروان سے روایت امام اہل مصر لیث بن سعد نے یزید بن حبیبہ سے ذکر کی ہے دیکھیں : مسند احمد(۴؍۳۲۸)عبد اﷲ بن شداد کی مروان سے روایت مسند احمد (۶؍ ۳۱۷و ۳۲۳)پر موجود ہے۔ مروان کے رواۃ و تلامذہ میں امام یمن عبد الرزاق کا نام بھی شامل ہے جن پر شیعہ ہونے کاالزام ہے، جب مروان امام زین العابدین سے لے کر عبد الرزاق بن ہمام صنعانی جیسے ائمہ حدیث کے نزدیک قابل اعتماد ہے تو ایک رافضی کا اسے مورد طعن بنانا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔  قبل ازیں اس کا جواب دیا جا چکا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے ذاتی مال سے یہ عطیہ جات دیا کرتے تھے۔ [2] یہ صاف جھوٹ ہے۔ مورخ ابن خلدون اپنی تاریخ ج2 ،صفحہ:۱۳۹پر لکھتے ہیں :’’سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین عثمان سے مدینہ سے باہر جانے کی اجازت حاصل کر لی تھی۔ ابو ذر نے کہا:’’ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مامور فرمایاتھا کہ جب مدینہ کی آبادی سَلع نامی مقام تک پہنچ جائے تو اس سے نکل جائیں ۔‘‘ چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو اجازت دے دی تھی۔(مستدرک حاکم (۳؍۳۴۳)، ابو ذر رضی اللہ عنہ ربذہ نامی جگہ میں قیام پذیر ہوئے اور وہاں مسجد بنوائی۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ابو ذر کو اونٹوں کا ایک ریوڑ اور دو غلام عطا کیے تھے۔ ان کی تنخواہ بھی مقرر کردی تھی۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ مدینہ میں آیا جایا کرتے تھے، وہ جگہ جہاں وہ اقامت پذیر تھے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر تھی۔ مشہور جغرافیہ دان یا قوت لکھتا ہے :’’ مدینہ کے راستہ پر یہ بہترین جگہ تھی۔‘‘