کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 505
کے حوالے کردی؛اور نظام حکم اس پر چھوڑ دیا۔[1] جس کا نتیجہ میں پیدا ہونے والا فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔اور اس کی وجہ سے امت میں بہت بڑا فتنہ پیدا ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیت المال سے اپنے اقارب کوبہت زیادہ
[1] ابن عامر بڑے سخی، شجاع اور نیک فال تھے۔ سیدنا عثمان نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے بعد ۲۹ ھ میں ابن عامر کو بصرہ کا والی مقرر کیا، پھر عثمان بن ابو العاص کے بعد فارس کا علاقہ بھی ان کو سونپ دیا۔ ابن عامر نے پورا خراسان۔ اطراف فارس و سیستان اور کرمان کے ممالک فتح کرلیے اور غزنہ کے قریب جا پہنچے۔ ان فتوحات کا شکریہ ادا کرنے کے لیے ابن عامر نے نیشا پور سے احرام باندھا اور حالت احرام میں پاپیادہ حجاز پہنچے۔ اتفاق سے وہ سردی کا موسم تھا۔ جب سیدنا عثمان کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے ملامت کی اور فرمایا:’’ آپ نے یہ اقدام فریب دہی کے لیے کیا ہے۔‘‘ ان فتوحات سے کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا۔ یہ ہیں سیدنا عبد اﷲ بن عامر رضی اللہ عنہ کے وہ افعال ’’شنیعہ‘‘ جن پر رافضی قلم کار نقد و جرح کر رہا ہے۔ اس پر جس قدر حیرت و استعجاب کا اظہار کیا جائے کم ہے۔ یہ مجاہدین و فاتحین شیعہ کی نگاہ میں مذموم ہیں اور ان کے مقابلہ میں ہلاکو خاں اور سلطان خدابندہ تک اس کی نسل قابل مدح و ستائش ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا: کہ بروز حشر آدمی کو اس شخص کی رفاقت نصیب ہوگی۔ جس کے ساتھ وہ محبت رکھتا ہو۔‘‘ شیعہ کی یہ تضاد خیالی صرف دینی مرض ہی نہیں ، بلکہ عقلی و اخلاقی بیماری بھی ہے۔ ’’وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانَا مِمَّا ابْتَلٰی بِہٖ کَثِیْرًا مِّنْ خَلْقِہٖ‘‘  انگوٹھی سپرد کرنے سے رافضی مصنف کا اشارہ اس جعلی خط کی جانب ہے۔ قائد کوفہ اشترنخعی اور قائد بصرہ حُکیم بن جبلہ جب اپنے مقصد میں ناکام رہے اور کوفہ و بصرہ کے انقلابی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دلائل سے مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔ عراقیوں نے مشرق کی جانب عراق کا رخ کیا اور مصری جانب غرب عازم مصر ہوئے ؛تو یہ دونوں لیڈر مدینہ میں مقیم رہے اور اپنے رفقاء کے ساتھ واپس نہ گئے۔ چند دنوں کے بعد بیک وقت دو سوار مصری و عراقی قافلہ سے ملے جو سوار مصری قافلہ سے ملا تھا وہ ان کے قریب پہنچ کر عجیب و غریب حرکات کرنے لگا ۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ قافلہ والوں نے اسے دیکھ لیا ہے تو پھر چھپنے کی کوشش کی، جب انھوں نے وجہ پوچھی تو اس نے ایک خط دکھایا جس پر سیدنا عثمان جیسی مہر لگی تھی، اس نے بتایا کہ وہ یہ خط لے کر امیر مصر عبد اﷲ بن ابی سرح کی طرف جا رہا ہے۔ خط میں لکھا تھا کہ محمد بن ابی بکر کو قتل کردو۔ بعینہٖ اسی وقت عراقی قافلہ کو ایک شخص ملا جس کے پاس ایک خط تھا جس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مہر کی مانند مہر لگی ہوئی تھی، خط میں لکھا تھا کہ ’’ مدینہ واپس آجاؤ۔‘‘ جب دونوں فریق مدینہ پہنچے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اکابر صحابہ وجہ دریافت کرنے کے لیے نکلے، مصری لوگوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جعلی خط کا ذکر کیا ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پھر عراقیوں سے وجہ دریافت کی انھوں نے کہا کیا آپ نے خط کے ذریعہ ہمیں واپس آنے کا حکم نہیں دیا؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حلف اٹھا کر کہا کہ مجھے اس خط کے بارے میں کچھ علم نہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا عثمان و علی کے نام سے یہ جعلی خط تیار کیے گئے تھے خصوصاً جب کہ سیدنا عثمان و مروان کو معلوم تھا کہ عبد اﷲ بن ابی سرح مصر میں موجود ہی نہیں ۔ مروان ایک ادنیٰ آدمی کے ساتھ بھی خیانت کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ پھر وہ ازراہ خیانت سیدنا عثمان کی انگوٹھی کیوں کر استعمال کر سکتے تھے جو امور خلافت میں بڑی اہم چیز سمجھی جاتی ہے بفرض محال اگر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی ازراہ فریب مروان نے استعمال کی تھی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی استعمال کرنے والا کون تھا؟ روافض اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مروان وہ شخص ہے کہ سیدنا زین العابدین رحمہ اللہ جیسے لوگ اس سے دینی احکام پر مشتمل روایات اخذ کرتے ہیں ۔ مروان سے جن لوگوں نے روایت کی ہے ایک سیدنا زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔ جن حفاظ و ائمہ حدیث نے یہ بات بیان کی ہے ان میں سے آخری محدث حافظ ابن حجر عسقلانی ہیں جنھوں نے ’’ الاصابہ‘‘ میں اس پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ کے شاگردوں میں سرخیل تابعین سعید بن مسیب اور ان کے برادر فقہائے سبعہ ابوبکر بن عبد الرحمن و عُبید اﷲ بن عبد اﷲ و عروہ بن زبیر اور ان کے نظائر و امثال مثلاً عراک بن مالک غفاری مدنی جو صائم الدہر تھے۔ نیز عبد اﷲ بن شداد جو سیدنا عمر و علی و معاذ سے روایت اخذ کیا کرتے تھے۔ عروہ بن زبیر کی مروان سے روایت صحیح بخاری، کتاب الوکالۃ میں شامل ہے۔ نیز دیکھیے: مسند احمد(۳؍۳۲۱و(