کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 504
شکایت کی؛ تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پوشیدہ طورپر اسے لکھا کہ وہ اپنے عہدے پرڈٹا رہے۔یہ اس کھلے خط کے خلاف تھا جو اس کے نام لکھا گیا تھا ۔اورحکم دیا کہ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو قتل کردے۔[1]حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیربلادِ شام مقرر کیا جہاں اس نے کئی طرح کے فتنے بپا کیے۔ حضرت عبد اﷲ بن عامر رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا والی مقرر کیا جہاں اس نے بہت سارے ایسے برے کام کیے جن سے خدا کی پناہ۔[2]مروان کو والی مقرر کرکے اپنی انگوٹھی اس
[1] قبضہ جما لیا تھا۔ اس نے ابن ابی سرح کو حدود مصر میں داخل ہونے سے روکا، چنانچہ آپ فلسطین چلے گئے اور عسقلان و رملہ کے درمیان سکونت اختیار کی۔۵۷ھ تک فلسطین میں گوشہ نشین رہے۔
بغوی نے بسند صحیح یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا:ابن ابی سرح مقام رملہ کی طرف چل دیے، جب صبح ہوئی تو کہا’’ اے اﷲ! اس صبح کو میرا آخری عمل بنا دے۔‘‘ پھر وضوء کیا اور نماز ادا کی۔ پھر دائیں جانب سے سلام پھیرا۔ جب بائیں جانب سلام پھیرنے لگے تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔‘‘ اسد الغابہ(۲؍۲۶۴)۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ روایت اسی سند سے ذکر کی ہے۔ تاریخ کبیر(۵؍۲۹) مختصراً۔
العواصم من القواصم ،ص(۱۰۹۔۱۱۰)، نیز (۱۲۶۔۱۲۹) کے حواشی پر اس خط کے بارے میں علمی تحقیق ہے جو بقول شیعہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ یا مروان نے ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ کے نام ارسال کیا تھا۔ نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اظہار حیرت کرنے پر گفتگو کی ہے کہ عراقی فتنہ پرداز اور مصر کے شریر لوگ مختلف راستوں سے بیک وقت مدینہ پہنچ گئے جیسے پہلے انھوں نے یہ بات طے کر رکھی ہو، حالانکہ عراق والوں کو مطلقاً اس خط کا علم نہ تھا جو اہل مصر نے حامل خط سے لے لیا تھا۔ جب سیدنا علی نے اس پر اظہار تعجب کیا تو اہل عراق نے کہا:’’ کیاآپ نے ہمیں تحریر نہیں کیا تھا۔ کہ واپس مدینہ آجاؤ۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حلف اٹھا کر کہا کہ انھیں اس خط کا کوئی علم نہیں ۔‘‘ مندرجہ بالا بیان اس حقیقت کا مظہر ہے کہ دو جعلی خط تحریر کیے گئے تھے۔ ایک سیدنا علی کی جانب سے اہل عراق کے نام اور دوسرا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے اہل مصر کی طرف۔ یہ بات عقل و قیاس کے منافی ہے کہ یہ خط سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ یا مروان نے ابن ابی سرح کے نام لکھا۔ خصوصاً جب کہ انھیں معلوم تھا کہ اس نے مدینہ حاضر ہونے کی اجازت چاہی ہے اور وہ اس وقت فلسطین اور مدینہ کے درمیان غالباً عقبہ کے مقام پر پہنچ چکا تھا۔ جب ابن بی سرح مصر میں موجود ہی نہیں تھے۔ تو یہ خط ان کی جانب مصر کیوں کر بھیجا گیا؟ فتنہ سامانی کے دور کی تاریخ لکھنے والے مصنفین اس حقیقت سے مطلع نہ ہو سکے کہ جب عراق و مصر کے انقلابی مدینہ سے چلے گئے تھے توانقلاب کے دور عظیم لیڈر اور سیدنا عثمان کے شدید مخالف یعنی اشتر نخعی و حکیم بن جبلہ مدینہ سے نہیں گئے تھے۔ مدینہ قیام پذیر رہنے سے ان کا مقصد وحید یہ تھاکہ جس مشن کے لیے وہ مدینہ آئے تھے(سیدنا عثمان کا قتل) اس کوبہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے، چنانچہ انھوں نے سیدنا عثمان و علی کی جانب سے دو جعلی خط تیار کیے اور زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے دو اونٹ کرایہ پر لے کر دو اعرابیوں کے ذریعہ ایک کو مشرقی راستہ سے عراق اور دوسرے کو مصریوں کی طرف بھیجا جو غربی جانب ساحل کے ساتھ ساتھ جا رہے تھے۔ خطوط نویسی کا واحد مقصد سوئے ہوئے فتنہ کو جگانا اور از سر نو شرّ کو امت میں پھیلانا تھا۔ فتنہ کے ان دونوں بانیوں کے سوا کسی اور کو اس فتنہ پردازی میں ہر گز دلچسپی نہ تھی۔مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے:العواصم من القواصم۔
[2] امت محمدی کے مجوس( شیعہ) کی نگاہ میں سیدنا عبد اﷲ بن عامر رضی اللہ عنہ کا بدترین فعل یہ تھا کہ اس نے ایران میں کسریٰ کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ چنانچہ عبد اﷲ بن عامر کے عہد امارت میں فارس کے آخری بادشاہ یزدگرد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جب عبد اﷲ بن عامر پیدا ہوئے اور انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے بنو عبد شمس کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’یہ بچہ تمہاری نسبت ہم سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔‘‘ آپ بچے کے منہ میں تھوک ڈالتے جاتے تھے اور وہ نگلتا جاتا تھا آپ نے فرمایا:’’یہ بچہ ترو تازہ ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابن عامر رضی اللہ عنہ جس زمین میں بھی کام کرتے، وہاں پانی نکل آتا۔ ابن عامر پہلا شخص ہے جس نے عرفات میں حوض بنائے اور چشمے کا پانی وہاں پہنچایا۔ مستدرک حاکم(۳؍۶۳۹۔۶۴۰) وسندہ ضعیف۔ (