کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 467
کی خریداری۔ کسی ایک چیز کسی ایک بازار میں اور دوسری دوسرے بازار میں بیچنے کا اختیار ہو۔ تو وہ اپنے اجتہاد سے اپنی مصلحت کے مطابق اختیار کرے گا۔ پس امین کے لیے مصلحت سے پہلو تہی اختیار کرنا جائز نہیں جب تک اسے اتنی مشقت نہ ہو جس کی وجہ سے اس کا ترک جائز ہو۔ خلیفۃ المسلمین کا مسلمانوں کے لیے تصرف اسی قبیل سے ہے۔جیسے اس قیدی کا معاملہ ہے جسے قتل کرنے اور غلام بنانے میں ؛ احسان کرکے چھوڑ دینے اور فدیہ لینے میں اختیار ہوتا ہے۔ یہ اکثر علماء کے نزدیک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جنگ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں صحابہ سے مشورہ لیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدیہ لینے کامشورہ دیا اور آپ نے انھیں حضرت ابراہیم و عیسیٰ کے ساتھ تشبیہ دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو قتل کرنے کا مشورہ دیا۔[1] آپ نے ان کو نوح و موسیٰ رحمہم اللہ کے مشابہ قرار دیا۔ آپ نے دونوں میں سے کی مذمت نہ کی بلکہ انبیاء کے ساتھ تشبیہ دے کر ان کی مدح و ستائش فرمائی۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حتمی طور پر ایک بات پر عمل کرنے کے مامور ہوتے تو صحابہ سے مشورہ نہ لیتے۔ ایسے ہی خلیفہ کے اپنے عمال اور والیان مقرر کرنے میں اجتہاد کا معاملہ بھی ہے۔امام یا خلیفہ پر واجب ہوتا ہے کہ اس انسان کو والی مقرر کرے جسے اپنی رائے میں بہتر سمجھتا ہو۔ علاوہ ازیں اجتہادی امور میں اختلاف کا امکان ہے اور ہر اجتہاد مبنی بر صواب ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غزوات میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار مقرر کیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کو معزول کرنے کا مشورہ دیا کرتے تھے، مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس مشورہ پر عمل نہیں کیا کرتے تھے، بلکہ فرمایا کرتے تھے: ’’ خالد رضی اللہ عنہ مشرکین پر اﷲکی شمشیر برہنہ ہیں ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب مسند خلافت پر فائز ہوئے، تو انھوں نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے ان کی جگہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو سالار مقرر کیا۔ دونوں کا طرز عمل اپنے اپنے وقت پر درست تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم مزاج تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے مقابلہ میں جابر و سخت گیر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں سے مشور لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: ’’جب عمر رضی اللہ عنہ و ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کسی بات پرمتفق ہو جائیں تو میں ان کی مخالفت نہیں کروں گا۔‘‘[2]
[1] مستدرک حاکم(۳؍۲۱۔۲۲)، مسند احمد(۱؍۳۸۳)، و اسنادہ ضعیف لانقطاعہ۔ [2] مسند احمد(۴؍۲۲۷)، تاریخ الاسلام للذہبی ( عہد الخلفاء،ص:۲۵۶)۔روی الہیثمِی فِی مجمعِ الزوائِدِ 9؍52 وعنِ البرائِ بنِ عازِب أن النبِی صلی اللہ علیہِ وسلم قال لأِبِی بکر وعمر: الحمد لِلّٰہِ الذِی أیدنِی بکِما، ولولا أنَّکما تختلِفانِ علیَّ ما خالفتکما۔ قال الہیثمِی: رواہ الطبرانِی فِی الأوسطِ وفِیہِ حبِیب بن أبِی حبِیب کاتِب مالکِ وہو متروک۔ ثم روی الہیثمِی 9؍53: وعنِ ابنِ غنم أن النبِی صلی اللّٰہ علیہِ وسلم قال لأِبِی بکر وعمر: لوِ اجتمعتا فِی مشورۃ ما خالفتکما۔ قال الہیثمِی: رواہ أحمد ورِجالہ ثِقات ِإلاأن ابن غنم لم یسمع مِن النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم۔