کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 449
اٹھارہ سو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ہر سو انسان کا سو حصہ ۔ جب کہ دو سو گھوڑے سواروں کو چھ سو حصے دیے۔ اور بارہ سو حصے بارہ سو پیادوں کو دیے۔ ان میں سے اکثر لوگ اونٹوں پر سوار تھے۔ تو آپ نے اونٹ کو کوئی حصہ نہیں دیا ۔‘‘ [1] تفضیل کو جائز قراردینے والوں کا کہنا ہے کہ: اصل تو مساوات ہے؛ مگر کبھی کبھی آپ تفضیل بھی برتا کرتے تھے؛ جو اس کے جواز کی دلیل ہے۔یہ قول صحیح ترین قول ہے کہ کسی راجح مصلحت کی خاطر افضلیت دینا جائز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی ذاتی محبت یا خواہش نفس کی وجہ سے فضیلت نہیں دعا کرتے تھے۔ بلکہ آپ کے ہاں اموال کی تقسیم دینی فضائل کی بنیاد پر ہوا کرتی تھی۔ آپ مہاجرین انصار میں سے سابقین اولین کو ترجیح دیتے تھے ۔ پھر ان کے بعد والے صحابہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کرنے تھے۔ آپ اپنے اہل خانہ کو اور اپنی ذات کو اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی نسبت بہت کم حصہ دیاکرتے تھے۔چنانچہ آپ نے اپنی بیٹی اور بیٹے کو ان ہی کے امثال دوسے لوگوں کی نسبت حصہ کم دیا تھا۔ تفضیل کا طعنہ اس پر مؤثر ہو سکتا ہے جو خواہش نفس کی وجہ سے ایسے کرتا ہو۔ اور جس انسان کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کا حصول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری ہو۔ اس پر یہ طعنہ زنی مناسب نہیں ۔ جو کوئی ان لوگوں کو فضیلت دیتا ہو جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت دی ہے، اور ان کی تعظیم کرتا ہو جن کی تعظیم اللہ اور اس کے رسول نے کی ہے ؛تو ایسا انسان مذمت کے بجائے مدح وثناء کا مستحق ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اتنا کچھ دیا کرتے تھے، جو کہ ان کے امثال کو نہیں ملتا تھا۔ یہ سلوک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام قرابت داروں کے ساتھ تھا۔ اگر آپ مساوات کرتے تو پھر اتنا کچھ صرف چند ایک ہی لوگوں کو مل سکتا تھا۔‘‘ [2] جب کہ خمس کے بارے میں علماء کا اجتہادی اختلاف ہے۔ان میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے ساتھ ہی خمس بھی ساقط ہوگیا ہے۔اور بنی ہاشم میں سے کوئی بھی اب کسی خمس کا حق دار نہیں ہے۔ہاں اگر ان میں کوئی یتیم یا مسکین ہو تو اسے اس کے یتیم یا مسکین ہونے کی وجہ سے کچھ دیا جائے گا۔
[1] امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ نافع رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کسی آدمی کے ساتھ گھوڑا بھی ہوتا تو اس کو تین حصے ملتے اور اگر اس کے ساتھ گھوڑا نہ ہوتا تو اسے ایک حصہ ملتا۔‘‘ [البخاری، ح: ۴۲۲۸] [2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عطیات میں لوگوں کے طبقات بنا رکھے تھے۔ پہلا طبقہ بدری مہاجرین دوسرا طبقہ بدری انصار، تیسرا طبقہ وہ مہاجرین جو بدر میں شرکت نہ کر سکے۔ چوتھا طبقہ وہ انصار جو بدر میں شریک نہ تھے پھر وہ لوگ جو حدیبیہ اور فتح مکہ میں شریک ہوئے، پھر وہ لوگ جو قادسیہ اور یر موک میں شریک ہوئے۔ پھر کچھ لوگوں کے خاص وظائف مقرر تھے، ان میں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔ لیکن آپ عربی اور اس کے غلام میں مساوات برتتے تھے۔ بخلاف اس طعنہ گرکے۔ آپ اہل بدر عرب اور غلاموں کو برابر دیا کرتے تھے۔ اور آپ نے لشکروں کے امراء کو بھی یہ تحریر بھیجی تھی کہ جن غلاموں کو تم نے آزاد کر دیا ہے، اور وہ مسلمان ہوگئے ہیں ، انہیں ان کے سابقہ آقاؤوں کے ساتھ ملاؤ۔ ان کا بھی وہی حق ہے جو ان کے آقاؤوں کا ہے۔ اور ان پر وہی فرض ہے جو ان پر ہے۔ اور اگر وہ چاہیں کہ وہ علیحدہ سے ایک قبیلہ بن جائیں ۔ تو انہیں اپنی عطاء اور حسن سلوک میں اسوۃ اور نمونہ بناؤ۔‘‘