کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 440
یہی وجہ ہے کہ فقہاء کہتے ہیں : وہ شبہ جس کی وجہ سے حد ساقط ہوتی ہے وہ اعتقاد کا شبہ ہے۔یا ملکیت کا شبہ ہے۔ پس جس نے نکاح کیا؛ اوروہ اعتقاد رکھتا تھا کہ اس کے ساتھ وطی جائز ہے؛ تو اس پر کوئی حد نہیں ہوگی۔ اگرچہ وہ باطن میں اس پر حرام ہی کیوں نہ ہو۔ہاں اگر اسے حرام ہونا معلوم ہو ؛ لیکن سزا کا بھلے علم نہ ہو تو اس پر حد نافذ کی جائے گی۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ پر حد نافذ کی؛ انہیں زنا کے حرام ہونے کا علم تھا؛ مگر اس کی سزا کا علم نہ تھا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جاتا ہے۔ تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کردیا۔کیونکہ اسے اس فعل کے حرام ہونے کا علم تھا۔ اگرچہ اس فعل کی سزا رجم کا علم نہ بھی تھا۔ یہاں پر یہ بیان کرنامقصود ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے۔اور جو کوئی آپ کے سامنے حق بیان کرتا آپ اسے قبول کرتے تھے۔اس کی دو وجوہات ہیں : پہلی وجہ:....آپ کے لیے اس معین واقعہ میں مناط الحکم واضح ہوجاتا؛جسے وہ جانتے ہوتے ۔ جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب فرمایا کہ : ’’ یہ زناکے حرام ہونے کے حکم سے جاہل ہے ۔‘‘ یہاں پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عام حکم نہیں بیان کیا۔بلکہ اس متعین قضیہ کے بارے میں انہیں بتایا کہ یہ عورت اس حکم کی اہل ہے۔ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول کہ : یہ مجنون ہے۔اس کا شمار بھی ایسے ہی قضایا میں ہوتا ہے۔ توآپ نے اس کے مجنون ہونے کے بارے میں یا حامل ہونے کے بارے میں خبردی۔ [1]
[1] بہت ساری احادیث میں مہر میں تخفیف کرنے کی ترغیب وارد ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صراحت کے ساتھ مہر میں غلو سے نہی صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔ ابو داؤد رحمہ اللہ نے ابو العجفاء اسلمی سے روایت کیا ہے:’’بہترین نکاح وہ ہے جس میں آسانی ہو۔‘‘ [سنن ابی داؤد ۲۱۰۶۔] اس حدیث سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مہر میں بہت زیادہ غلو سے منع کرتے تھے اس سے دوسری روایت کا بطلان ثابت ہو گیا۔۲۔ اس روایت میں دوسری صحیح اور صریح نصوص کی مخالفت پائی جاتی ہے، جن مہرمیں غلو سے اجتناب کی ترغیب، اور اس معاملہ میں نرمی برتنے کا حکم ہے، ان میں سے ایک روایت جو کہ سنن ابی داؤد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا: ’’بہترین نکاح وہ ہے جس میں آسانی ہو۔‘‘ [سنن ابی داؤد: ۲۱۱۷۔] اور امام حاکم اور ابن حبان رحمہما اللہ نے موار دالظمان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، آپ فرماتی ہیں : ’’ رسول اللہ نے مجھے سے فرمایا:’’ کون ہے جو عورت پر احسان کر کے اس کا معاملہ آسان کرے، اور مہر کم دے۔‘‘ ابن حبان ۴۰۹۵۔ مستدرک الحاکم: ۲؍۱۹۷،۲۷۳۹، موارد الظمان: ۱۲۵۶۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ؛اس نے عرض کیا کہ:’’ میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے۔‘‘تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:’’ کیا تو نے اسے دیکھا ہے کیونکہ انصاری عورتوں کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے۔‘‘ اس نے کہا:’’ میں نے اسے دیکھا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تو نے اس سے کتنے مہر پر شادی کی‘‘؟ اس نے کہا:’’ چار اوقیہ پر۔‘‘ تو اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’چار اوقیہ پر؛ گویا کہ تم اس پہاڑ سے چاندی کھود لاتے ہو؛ جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ البتہ عنقریب ہم تمہیں ایک قافلہ میں بھیجیں گے تاکہ تجھے اس سے کچھ مل جائے۔‘‘ [مسلم ۱۴۲۴] اس کے علاوہ بھی دیگر احادیث ہیں جن میں مہر کم رکھنے کی ترغیب ہے۔جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے قول میں حق پر تھے۔