کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 419
۲۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا [جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا ]۔
۳۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب انہوں نے اپنے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا ۔‘‘ [مستدرک ۳؍۹۰]
یہ تمام علماء کرام جن کا ہم نے ذکر کیا ہے ؛ یہ سبھی جانتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف آپ کے بعد آنے والے خلفاء کی نسبت زیادہ کامل و مکمل تھا۔ اور بعدمیں آنے والوں کی نسبت آپ کا علم بھی کامل و اتم تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کے بعد آنے والے خلفاء کی سیرت کے مابین جو فرق ہے اسے ہر خاص و عام جانتا ہے۔بیشک آپ کے اعمال ظاہر ہیں ‘ اور آپ کی سیرت بڑی صاف اور واضح ہے۔ جس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حسن نیت؛ ارادہ و قصد عدل ؛ عدم غرض؛ہوائے نفس کی سرکوبی ایسے ٹپکتی ہوئی نظر آتی ہے کہ اس کی مثال بعد میں آنے والوں کی سیرت میں نہیں ملتی۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا:
’’ جب تم سے شیطان کسی راستہ میں چلتے ہوئے ملتا ہے تو وہ تمہارے راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راہ پر چلنے لگتا ہے۔‘‘[1]
اس لیے کہ شیطان انسان پر اس کی خواہشات نفس کی وجہ سے ہاتھ ڈالتا ہے ؛ جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان خواہشات کا سر کچلنے والے تھے۔ نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
’’ اگر میں تم میں مبعوث نہ کیا جاتا تو پھر عمر رضی اللہ عنہ کو مبعوث کیا جاتا۔‘‘[2]
اور فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ عمر کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے ۔‘‘[3]
کئی ایک مواقع پر آپ کے رائے رب کی رائے کے موافق ہوئی ؛ اور اللہ تعالیٰ نے اس پر قرآن نازل فرمایا۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں : ہم کہا کرتے تھے :
’’سکینہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے جاری ہوتا ہے۔ ‘‘[4]
[1] صحیح بخاری:جلد دوم:ح897۔کتاب بدء الخلق ؛ باب صفۃ ابلیس و جنودہ ۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ [ایک مرتبہ]حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی اور [اس وقت] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہی تھیں اور اونچی آوازوں سے خوب زور سے گفتگو کر رہی تھیں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی تو وہ اٹھ کر جلدی سے پردہ میں چلی گئیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ہنستے ہوئے آنے کی اجازت دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تبسم ریز رہیں [اس وقت باعث تبسم کیا ہے]؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:....اس روایت میں ہے....: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! جب تمہیں شیطان کسی راستہ میں چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو تمہارے راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ پر ہو لیتا ہے۔‘‘
[2] فضائل الصحابۃ للأمام أحمد ۱؍۴۲۸۔یہ روایت بہت ضعیف ہے؛ امام احمد نے مسند میں ایک اور روایت بھی نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :’’ لوکان بعدی نبی لکان عمر ۔‘‘ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔‘‘ ۴؍۱۵۴؛ والحاکم ۳؍۸۵؛ والترمذي ح ۳۶۸۶۔
[3] سنن أبي داؤد ۳؍۱۹۱؛ والترمذي ۵؍۲۸۰۔
[4] رواہ أحمد ۲؍۱۴۷۔