کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 417
’’جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخمی کردیے گئے تو لوگ آپ کے پاس عیادت کے لیے حاضر ہوئے ۔ان میں سے ایک ابن عباس رضی اللہ عنہمابھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آخری گھڑیاں تھیں ؛ اور آپ رورہے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرمانے لگے : اے امیر المؤمنین ! آپ کو کس چیز نے رلادیا ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم ! میں دنیا کے افسوس پر نہیں رو رہا؛ او رنہ ہی مجھے دنیا کا کوئی شوق ہے۔ لیکن مجھے قیامت کی سختیوں کا خوف محسوس ہورہا ہے ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا: اے امیر المؤمنین ! اللہ کی قسم ! آپ اسلام لائے تو آپ کا اسلام لانا فتح تھی۔ پھر آپ کو امیر بنایا گیا ؛ تو آپ کی امارت بھی فتح سے عبارت تھی۔آپ نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔ مسلمانوں کے کوئی دو آدمی بھی ایسے نہیں ہیں جن کے مابین کوئی رنجش ہو؛ تو ان کے سامنے آپ کا ذکر کیا جائے تو وہ آپ کی بات پر راضی ہوجاتے ہیں ‘ اور اس پر قناعت کر لیتے ہیں ۔
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ مجھے بیٹھادو ۔‘‘
جب آپ کو بیٹھادیا گیا تو آپ نے فرمایا : ’’ اپنی بات دھراؤ ۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا : درست ہے ؛ میں دھراتا ہوں ۔ اور اپنی بات دھرا دی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اے ابن عباس ! کیا آپ میرے لیے قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس بات کی گواہی دیں گے ؟
آپ نے فرمایا: ہاں اے امیر المؤمنین ! میں اللہ کے ہاں آپ کے حق میں اس بات کی گواہی دوں گا ۔اور یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ بھی آپ کے لیے اس بات کی گواہی دیں گے۔اس وقت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ وہاں پر تشریف فرما تھے۔
تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا : ہاں اے امیر المؤمنین ۔‘‘ [1] [رواہ ابن جوزی في مناقب عمر ۱۹۳]۔
یہ لوگ جو صبح وشام علم کی تلاش میں رہتے ہیں ؛ ان کی کسی ایک کے ساتھ کوئی غرض نہیں ہوتی۔ بلکہ کبھی کسی کے قول کو
[1] حضرت علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :’’ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے والی امیر بنے تو انہوں نے لوگوں کو اسلام پر مضبوطی سے عمل پیرا کیا اور خود بھی عمل پیرا ہوگئے حتی کہ اسلام خوب مضبوط اور توانا ہو گیا۔ ‘‘ [نھج البلاغۃ: ۸۹۱۔ ح: ۴۵۷۔ باب المختار من حکم امیر المومنین ....خصائص الأئمۃ: ۱۲۴]شارحین نہج البلاغہ نے اس قول کی شرح کی ہے۔ان میں سے میشم البحرانی الدنبلی کہتا ہے: ’’ اس کا مطلب ہے کہ اسلام اسی طرح پائیدار اور مضبوط ہوگیا جیسے اونٹ پوری مضبوطی سے جم کر اپنے باڑہ میں بیٹھ جاتا ہے۔‘‘ [شرح نھج البلاغۃ: ۵؍ ۴۶۳۔ الدرۃ النجفیۃ: ۳۹۴۔]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کاوقت قریب ہوا تو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ تو ہم نے ان کے احکامات سنے اور ان کی اطاعت و خیر خواہی کی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہایت پسندیدہ سیرت وکردار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے۔‘‘[ الغارات للثقفي: ۱؍ ۳۰۷۔]