کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 405
نیز جو کچھ ابو لؤلؤ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ؛ وہ آپ کے حق میں کرامت ہے۔[1]
لیکن یہ اس سے بڑھ کر ہے جو ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ؛ اورجو کچھ قاتلان حسین رضی اللہ عنہ نے آپ کے ساتھ کیا ۔اس لیے کہ ابو لؤلؤ کافر تھا اس نے ایک مؤمن کوقتل کیا ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کفار اہل ایمان کوقتل کرتے ہیں ۔یہ شہادت ہے جو اس شہادت سے کہیں بڑھ کر ہے جس میں کوئی مسلمان کسی مسلمان کوقتل کر دے ۔نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابو لؤلؤ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے تقریباً ساڑھے بارہ سال کے بعد قتل کیا ۔تو پھر یہ کیسے پتہ چلا کیا آپ کا قتل اس بد دعا کا نتیجہ تھا جو اتنا لمبا عرصہ پہلے ہوچکی تھی۔ جب کوئی کسی مسلمان کے لیے بددعا کرے کہ اسے کوئی کافر قتل کردے ‘ تو حقیقت میں یہ اس پر بددعا نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کے حق میں نیک دعا ہوتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کے لیے بھی ایسی ہی دعا کیا کرتے تھے ؛ آپ فرمایا کرتے تھے :’’ یا اللہ ! فلاں کی مغفرت کردے ۔‘‘توصحابہ کرام کہتے : اے کاش یہ فائدہ ہمیں حاصل ہوا ہوتا۔ اس لیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان الفاظ میں دعا کیا کرتے تو وہ کچھ عرصہ میں ہی شہید ہوجاتا۔[2]
اب اگر کوئی یہ کہے کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل صفین اور خوارج پر ظلم کیا ؛ انہوں نے حضرت پر بددعا کی ؛ ان ملجم نے جو کچھ کیا وہ اسی بددعا کا نتیجہ تھا؛ تو معقول ہونے کے لحاظ سے یہ قول پہلے قول سے کچھ بعید نہ ہوگا۔اور ایسے ہی اگر یہ کہا جائے کہ آل سفیان بن حرب نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ پر بددعا کی تھی ؛ اسی کے نتیجہ میں آپ کو شہید کردیا گیا ۔
فدک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی غرض نہ تھی۔ نہ ہی آپ نے اس میں سے کچھ اپنی ذات کے لیے لیا ؛ اور نہ ہی اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کے لیے کچھ لیا ۔اورنہ ہی اہل بیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محروم رکھنے میں انہیں کوئی فائدہ تھا۔ بلکہ آپ اہل بیت کو عطیات سے نوازنے میں باقی تمام لوگوں پر مقدم رکھا کرتے تھے۔یہاں تک کہ
[1] اﷲ تعالیٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر اپنی رحمت نازل فرمائے، وہ اس بات پر اظہار حیرت کر رہے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مجوسی کے ہاتھوں شہید ہونا بھی شیعہ کے نزدیک ایک جرم ہے، انھیں کیا معلوم تھا کہ شیعہ سیدنا عمر کے قاتل مجوسی کو بابا شجاع الدین کہہ کر پکاریں گے۔ شیعہ کے مشہور شیخ احمد بن اسحاق احوص نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اظہار مسرت کرنے کے لیے اس مجوسی کے اعزاز میں جشن کا ایک دن مقرر کیا اور اس کا نام ’’ عید بابا شجاع الدین‘‘ رکھا۔ فاروق اعظم کے یوم شہادت کو ’’عید اکبر‘‘ ’’ و یوم التسلیۃ‘‘ اور ’’ یوم المفاخرہ‘‘ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں ۔
[2] البخاری 5؍130؛ کتاب المغازی ؛ باب غزوۃ خیبر۔9؍7۔8؛ کتاب الدیات ؛ باب إذا قتل نفسہ خطأ فلادیۃ لہ۔مسلم کتاب الجہاد والسیر باب غزوۃ خیبر۔حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے....تو جماعت میں سے ایک شخص نے کہا کہ اے عامر کاش تم اپنے اشعار سناتے وہ سواری سے اتر پڑے اور حدی پڑھنے لگے، ....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون ہے ؟ تو عرض کیا:’’میں عامر ہوں ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ آپ کا رب آپ پر رحم کرے۔‘‘کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے لیے بطور خاص مغفرت کی دعا کرتے تو وہ شہید ہو جاتا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ !کاش اس عامر سے آپ ہمیں اور فائدہ پہنچاتے ۔....اس روایت میں ہے: حضرت عامر رضی اللہ عنہ کو اپنی ہی تلوار سے زخم لگ گیا جس کے کی تکلیف سے وفات پاگئے۔‘‘