کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 389
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر اس وقت بد دعا بھی کی تھی جب ان کے مابین تقسیم اراضی کے مسئلہ میں اختلاف ہوا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہم اکفنی بلالا و ذویہ ۔‘‘ اس پر ایک سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ ان میں سے ایک بھی زندہ نہ رہا۔[1]
ابو نعیم نے الحلیۃ میں قطیعی سے روایت کیا ہے۔وہ کہتاہے: مجھ سے حسن بن عبداللہ نے حدیث بیان کی ؛وہ کہتا ہے : مجھ عامر بن سیار نے حدیث بیان کی؛ وہ کہتا ہے: مجھ سے عبد الحمید بن بہرام نے حدیث بیان کی ؛ وہ شہر بن حوسب سے روایت کرتاہے؛ وہ عبد الرحمن بن غنم سے وہ حارث بن عمیر وہ فرماتے ہیں :
’’ حضرت معاذ ؛ ابوعبیدہ ‘شرحبیل بن حسنہ اور ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہم ایک ہی دن میں زخمی ہوئے ۔ تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : بیشک یہ تمہارے رب کی رحمت ؛ اور تمہارے نبی کی دعاہے؛ اور تم سے پہلے نیکوکاروں کا قبض کرنا ہے۔ اے اللہ ! آل معاذ کو اس رحمت سے وافر نصیب عطا فرما۔‘‘
ابھی شام نہیں ہوئی تھی کہ آپ کا سب سے پیارا بیٹا عبدالرحمن ۔جس کے نام پر آپ اپنی کنیت رکھتے تھے ۔ زخمی ہوگیا۔ یہ بیٹا آپ کو تمام مخلوق سے بڑھ کر محبوب تھا۔ جب آپ مسجد سے واپس آئے تو اسے انتہائی تکلیف کی حالت میں دیکھا۔آپ نے پوچھا: اے عبد الرحمن ! آپ کیسے ہیں ؟ اس نے کہا : اے اباجی ! حق آپ کے رب کی طرف سے ہے ‘ آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجانا ۔‘‘[مراد یہ ہے کہ موت رب کی طرف سے آنی ہے ؛ آپ صبر سے کام لینا]۔
تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ ان شاء اللہ آپ مجھے بھی صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔‘‘
پھر رات کو اس کی روح قبض ہوگئی ؛ اور اگلے دن صبح دفن کردیا گیا۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ خود بھی زخمی تھے ۔ آپ کو موت
[1] یہ واقعہ ابو عبید قاسم بن سلام نے اپنی کتاب ’’الاموال ص ۱۸ ؛ بتحقیق محمد خلیل ھراس ؛ پر نقل کیا ہے۔ اس میں ہے: ’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ جو بستیاں بغیر جنگ کے فتح ہوئی ہیں ؛ ان کی اراضی ہم میں تقسیم کردیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایسے نہیں کروں گا؛ بلکہ اسے بیت المال میں روک کر رکھوں گا؛ تاکہ عام مسلمان ان سے مستفید ہوں ۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس پر اصرار کیا کہ آپ اسے تقسیم کیجیے۔ تو آپ نے دعا کی: ’’ یا اللہ ! میرے لیے بلال اور اس کے ساتھیوں کی طرف سے کافی ہو جا۔‘‘ اس پر ایک سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ ان میں سے ایک بھی زندہ نہ رہا۔‘‘شیخ خلیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ ہم اس چیز کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے لیے موت کی بد دعا کی ہو۔ اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؛ جبکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ فرمایا کرتے تھے: ’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے سردار ہیں ؛ اور انہوں نے ہمارے سردار [یعنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ ]کو آزاد کیا ہے۔ لیکن ممکن ہے کہ آپ کی مراد یہ ہو کہ : اللہ تعالیٰ ان کے مابین اس جھگڑے کا حل نکال دے۔ مزید دیکھیں : [أخبار عمر رضی اللہ عنہ ؛ از علی و ناجی طنطاوی ص ۱۱۳] اس طرح حضرت عمر اور عثمان رضی اللہ عنہمانے اپنے اپنے دور خلافت میں کیا ۔ پھر حضرت علی علیہ السلام نے بھی اس باغ کا انتظام اسی طریقے پر چلایا ۔‘‘ [شرح نھج البلاغۃ: ۵؍ ۱۰۷۔ الدرۃ النجفیۃ: ۳۳۱۔] جناب حضرت زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’اﷲ کی قسم! اگر معاملہ میرے ہاتھ میں آجائے تو میں اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ۔‘‘ [شرح نھج البلاغۃ: ۱۶؍۲۲۰ (ومن کتاب لہ الی عثمان بن حنیف الأنصاری)۔ الصوارم المھرقۃ ۲۴۳۔ مبر: ۷۵۔]