کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 384
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علم سے بڑھ کر ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان چیزوں کی جانکاری اور عدل و انصاف کے قائم کرنے کے زیادہ حق دار تھے۔ جو کوئی اس معاملہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کوحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑا عالم اورعادل کہے ؛ وہ لوگوں میں سب سے بڑا جاہل ہے۔ خصوصاً جب کہ جمہور مسلمین کی اس مسئلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے میں کوئی غرض ہی نہیں تھی۔ تمام ائمہ اور فقہاء کا متفقہ مسئلہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اپنا مال وراثت میں نہیں چھوڑتے ۔حالانکہ یہ تمام حضرات سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عزت و قدر کرتے ہیں اورآپ کی عظمت کا خیال رکھتے ہیں ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ کسی فرمان کو لوگوں کے اقوال کے مقابلہ میں ترک بھی نہیں کرتے ۔اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم بھی نہیں دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور سے اپنا دین اخذ کریں ۔نہ ہی آپ کے اقارب سے ‘ اورنہ ہی غیر اقارب سے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت واتباع کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے : ’’ وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جو عورت کو اپنا بڑا بنالیں ۔‘‘[1] توپھر امت کے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم شدہ سنت چھوڑ کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے منقول حکایات کو مان لیں کہ آپ نے اپنی میراث طلب کی تھی ؛ اس لیے کہ آپ کو یقین تھا کہ انہیں وراثت ملے گی۔[2]
[1] [رواہ البخاری ۶؍۲۸] حضرت حسن ابی بکرہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا یعنی جنگ جمل کے دن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لشکر میں شریک تھا قریب تھا کہ میں مسلمانوں سے لڑتا کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آ گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسری کی بیٹی کے تخت نشین ہونے کی خبر سن کر فرمایا تھا کہ:’’ بھلا وہ قوم کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے جو اپنا کام ایک عورت کے حوالے کر دے۔‘‘ وجاء الحدِیث مختصرا فِی البخاری 9؍55 ؛ کتاب الفِتنِ، باب حدثنا عثمان بن الہیثمِ، والحدِیث أیضاً فِی سنن الترمذی 3؍360 ؛ِ کتاب الفِتنِ،و سننِ النسائِیِ 8؍200؛ ِکتاب آدابِ القضاِء، باب النہیِ عنِ استِعمالِ النِسائِ، والحدِیث فِی المسندِ ؛ط۔ الحلبِیِ، مع اختِلاف فِی اللفظِ تملِکہم امرأۃ، انظر 5؍38۔ [2] شیعہ عالم ابن المیشم لکھتا ہے: جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم کی میراث طلب کرنے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچیں ؛ تو آپ نے فرمایا: ’’ بیشک آپ کو وہی کچھ ملے گا جو آپ کے والد محترم لیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدک سے اپنے اہل خانہ کے لیے غلہ لیا کرتے تھے۔ باقی غرباء میں تقسیم کر دیتے یا مجاہدین کی ضروریات میں خرچ کر دیتے۔ لہٰذا آپ بتائیں کہ آپ اس باغ میں کیسے تصرف کریں گی۔ انہوں نے کہا: میں اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلوں گی۔ اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ سے وعدہ رہا کہ میں ایسے ہی تصرف کروں گا جیسے آپ کے والد گرامی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا: اﷲ کی قسم کیا تم اس میں ایسے ہی تصرف کرو گے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’ اﷲ کی قسم ! میں ضرور ویسا ہی تصرف کروں گا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے اﷲ گواہ ہو جا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس باغ کا غلہ لے کر اہل بیت کی ضروریات پوری کرتے اور باقی ماندہ تقسیم کر دیتے۔‘‘ تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ان سے یہ عہد لینے کے بعد اس پر راضی ہوگئیں ۔‘‘دیکھیں : شرح نہج البلاغہ ازابن میثم البحرانی ؛ ص 107؛ الدرۃ النجفیۃ از الدنبلی ص331۔ الشیعۃ و اہل البیت از احسان الٰہی ظہیر 84۔ کشف الغمہ میں ہے: ’’ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’ اے فاطمہ! آپ ہمارے نبی کی بیٹی ہیں ؛ آپ میرے مال میں سے جو مرضی چاہیں لے لیں ؛ مگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال میں میں ویسے ہی تصرف کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تصرف فرمایا کرتے تھے۔‘‘ [کشف الغمہ ؍بحث جاگیر فدک]