کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 380
نہیں ۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوسکی۔ جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں تواتر کے ساتھ کتاب و سنت سے ثابت ہے کہ آپ معصوم الدم تھے‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور مالک بن نویرہ [1]کے مابین اتنا بڑافرق ہے جسے اللہ تعالیٰ ہی صحیح جانتا ہے ۔
جولوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کومباح الدم کہتے ہیں ان کے لیے یہ ہرگزممکن نہیں کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو معصوم الدم ثابت کرسکیں ۔ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا معصوم الدم ہونا حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے معصوم الدم ہونے کی بہ نسبت زیادہ ظاہر ہے ۔اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی نسبت سے موجبات قتل سے بہت زیادہ دور تھے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں کا شبہ حضرت علی اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کوقتل کرنے والوں کے شبہ کی نسبت انتہائی بودا اور کمزور تھا ۔اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کبھی کسی مسلمان کو قتل نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے اپنی خلافت کے لیے کسی سے جھگڑا کیااورنہ ہی اپنے خلافت پر کسی سے جنگ و قتال کے لیے مدد طلب کی۔
تو پھر اگر یہ کہنا جائز ہوسکتا ہے کہ جس نے اپنی خلافت کے لیے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو قتل کیا ؛ وہ اپنے اس فعل میں مجتہد تھا تو پھر یہ بھی کہاجا سکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ معصوم الدم تھے ۔ اس لیے کہ آپ اموال اور ولایات کے امور میں بدرجہ اولی اپنے افعال وتصرفات میں مجتہد تھے ۔
مالک بن نویرہ کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ معصو م الدم تھا ؛ اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے تاویل کی بنیاد پر قتل کردیا۔حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے لیے آپ کو قتل کرنا مباح نہ تھا۔جیسا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے لا إلہ إلا اللّٰہ کہنے کے بعد ایک انسان کو قتل کردیا تھا۔آپ فرماتے ہیں : جب ہم واپس ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ:
[1] مالک بن نویرہ یربوعی تمیمی ؛ (البدایہ و النہایہ 6؍321؛ الاعلام 6؍145؛ یہ سجاح کے لیے شعر گھڑتا تھا۔ جب وہ جزیرہ سے آئی؛ اور مسیلمہ کذاب سے اس کا رابطہ ہوا؛ اور پھر وہ اپنے علاقے میں واپس چلی گئی۔ اس پر مالک بن نویرہ کو ندامت ہوئی۔اور اس سلسلہ میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا۔ اس وقت اس نے بطاح نامی ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا ہوا تھا۔ اس وقت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے لشکر نے اسے جالیا۔ حضرت خالد نے لوگوں میں اسلام کی طرف واپسی کے اعلان کے لیے مہلت دینے کا اعلان کرنے کے لیے اپنے گشتی دستے بھیجے۔ چنانچہ بنو تمیم کے سردار اطاعت گزاری کیساتھ اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے حاضر ہوئے ۔اور انہوں نے اپنی زکواۃ ادا کردی۔ سوائے مالک بن نویرہ کے۔ وہ اس وقت تک حیرانگی کا شکار تھا۔ چنانچہ اسے اس کے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کرکے پیش کیاگیا۔ اب دو روایتیں ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ وعظ و نصیحت کے بعد ان کو خیموں میں رکھا گیا؛ رات بہت ٹھنڈی تھی۔ تو حضرت خالد بن ولید نے اعلان کیا کہ اپنے قیدیوں کے لیے تپش کا سامان کرو۔ لوگ غلط سمجھے ؛ اور انہوں نے قیدیوں کو قتل کردیا۔ ضرار بن ازور نے مالک بن نویرہ کو قتل کیا۔ او ردوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت خالد بن ولید نے کہا : کیا تم نہیں جانتے کہ ’’ زکواۃ اور نماز دونوں ایک ہی چیز ہیں ۔‘‘ اس پر مالک نے کہا: ’’ یہ تمہار ے ساتھی کا گمان تھا۔‘‘ اس کا اشارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف تھا۔ تو حضرت خالد نے اس گستاخی کی پاداش میں اسے قتل کروا دیا۔