کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 378
معافی چاہے اور اللہ اس کو بخش نہ دے ۔‘‘ [1] فصل: ....حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے قصاص؟ [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شرعی حدود کو ترک کردیا تھا۔ چنانچہ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے مالک بن نویرہ کو قتل کردیا‘جوکہ مسلمان تھا تو اس سے قصاص نہیں لیا تھا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے جس دن مالک بن نویرہ کو قتل کیااس رات اس کی بیوی سے شادی کرلی ؛ اور اس سے ہم بستر بھی ہوئے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبول نہ کیا۔‘‘ [جواب]: اس کے جواب میں کئی باتیں کہی جاسکتی ہیں : پہلی بات: اگر کسی بے گناہ کے قتل کا قاتل سے قصاص نہ لینا ایسا جرم ہے جس کی وجہ سے حکمران یا امام پر انکار کیا جاسکتا ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف حامیان عثمان رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی دلیل یہی ہو گی کہ وہ آپ کا قصاص لینے سے قاصر رہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مالک بن نویرہ جیسے زمین بھر کے لوگوں سے بدرجہا افضل تھے۔ آپ مسلمانوں کے خلیفہ تھے ؛ آپ کو بحالت مظلومی بغیر کسی وجہ کے شہید کیا گیا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قاتلوں سے قصاص نہ لیا۔ اسی وجہ سے شیعان ِعثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت میں شریک نہ ہوئے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان کو قتل کرنے میں معذور تھے؛ توحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا عذر مالک بن نویرہ کے قاتل کو قتل نہ کرنے میں اس سے زیادہ قوی ہے۔[ شیعہ کو چاہئے کہ اہل سنت کی طرح ابوبکر و علی رضی اللہ عنہمادونوں کو معذور قرار دیں ]۔ اور اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کوئی عذر نہیں تھا تو پھر قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو چھوٹ دینے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی کوئی عذر نہیں ہے۔ البتہ جو کچھ رافضی کرتے ہیں کہ اس چھوٹے سے معاملہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر تواعتراض کرتے ہیں ‘ مگر اتنے بڑے معاملہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اعتراض نہیں کرتے ؛ تو یہ ان کی جہالت کی انتہاء اور عقیدہ و اقوال میں تناقض کا نتیجہ ہے۔
[1] [سنن ابوداؤد:ج1:ح 1517] حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالیٰ مجھ کو اس پر عمل کی توفیق بخشتا جس قدر چاہتا۔ اور جب کوئی اور مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا تو میں اس کو قسم دیتا جب وہ قسم کھا لیتا؛ تو مجھے یقین آجاتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حدیث بیان کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا انکا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے اور پھر اچھی طرح وضو کر کے کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پڑھے اور پھر اللہ سے معافی چاہے اور اللہ اس کو بخش نہ دے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد قرآن کی یہ آیت پڑھی :﴿ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ﴾ [ آل عمران :135] ....آخر آیت تک۔ والحدِیث فِی سنن الترمذی 1؍252؛ ِکتاب الصلاِۃ باب ما جاء فِی الصلاِۃ عِند التوبۃ، وقال التِرمِذِی:’’حدِیث علِی حدِیث حسن لا نعرِفہ إِلا مِن ہذا الوجہ، سنن ابنِ ماجہ 1؍446؛کتاب ِإقامۃِ الصلاِۃ والسنِ فِیہا، باب ما جاء فِی أن الصلاۃ کفارۃ۔ المسندِ ط۔ المعارِف 1؍154؛ وصحح أحمد شاکِر ہذِہِ الرِوایاتِ۔