کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 370
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے جیسے: حضرت ابوبکر ؛ حضرت عمر؛ حضرت عثمان؛حضرت علی؛ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؛ زید بن ثابت ؛ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہ ۔ لیکن جو رائے حق کے موافق ہو‘ اس پر صاحب رائے کے لیے دو اجر ہوتے ہیں جیسے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ رائے اس رائے سے بہتر ہے جس میں صرف ایک ہی اجر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قیس بن عبادہ رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: ’’ یہ جو آپ سفر کرتے ہیں (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے لڑائی کے لیے) تو اس کے متعلق ہمیں بتلائیں کہ کیا اس کا کوئی عہد ہے جو آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا؟ یا آپ اپنی رائے سے ایسا کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کوئی عہد نہیں لیا لیکن یہ تو میری ذاتی رائے ہے۔‘‘[1] اگر ایسی رائے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مابین اتنا خون خرابہ ہوا ہو؛ صاحب رائے کے امام اور خلیفہ ہونے میں مانع نہیں ہوسکتی تو پھر وہ رائے کیسے مانع ہوسکتی ہے جس کے صحیح ہونے پر جمہور علماء کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہو۔‘‘ رافضی نے شروع میں جو کہا ہے کہ آپ نے دادا کی میراث کے بارے میں ستر سے زیادہ فیصلے دیے ؛ توجان لینا چاہیے کہ یہ سب صاف جھوٹ ہے۔نہ ہی یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ؛ اورنہ ہی آپ سے منقول ہے ۔بلکہ اس قول کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا رافضیوں کی جہالت اور جھوٹ کی انتہاء ہے ۔ ہاں ؛ بعض لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے دادا کی میراث کے بارے میں ستر سے زائد فیصلے کیے۔مگر اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنا بھی باطل ہے۔اس لیے کہ آپ کی خلافت میں ستر ایسے دادا فوت ہی نہیں ہوئے جن کے پوتوں کے بھائی بھی ہوں ۔ اس لیے کہ ان واقعات کی وجہ سے احتمال ہوسکتا تھا کہ آپ نے مختلف فیصلے دیے ہوں ۔پس معلوم ہوا کہ یہ جھوٹ ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ دادا کو باپ کی مثل قرار دیتے ہیں ، یہ متعدد صحابہ کا قول ہے۔اور بہت سارے فقہاء کا بھی یہی مسلک ہے ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور بعض شافعیہ اوربعض حنابلہ جیسے ابو حفص البرمکی بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔امام
[1] مسلِم 4؍2143؛ ِکتاب صِفاتِ المنافِقِین وأحکامِہِم، أول الِکتابِ الحدِیثانِ رقم 9، 10؛ ان دو روایات میں سے پہلی روایت کے الفاظ یوں ہیں : حضرت قیس بن عباد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’’ ہم نے عمار سے عرض کیا کیا تم نے اپنے قتال(معاویہ و علی کے درمیان جنگ) میں اپنی رائے سے شرکت کی تھی ؟[حالانکہ رائے میں خطا بھی ہوتی ہے اور درستگی بھی ]یا یہ کوئی وعدہ تھا جس کا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا ہو؟ انہوں نے کہا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی ایسا وعدہ نہیں لیا جس کا وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام لوگوں سے نہ لیا ہو۔ اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بیشک میرے صحابہ میں بارہ منافق ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے ان میں سے آٹھ کے لیے دبیلہ [آگ کاشعلہ] کافی ہوگا ؛جو ان کے کندھوں سے ظاہر ہوگا یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں توڑ کر نکل جائے گا۔‘‘ [راوی غندر کہتے ہیں :] اور چار کے بارے میں مجھے یاد نہیں رہا کہ شعبہ نے ان کے بارے میں کیا کہا۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کی شرح میں 17؍125پر فرماتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’بیشک میرے صحابہ میں ‘‘ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو صحابیت کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔‘‘ وجاء الحدِیث مختصرا ما ذکرہ ابن تیمِیۃ ہنا فِی: سننِ أبِی داود 4؍300 ؛کتاب السنۃِ، باب ما یدل علی ترکِ الکلامِ فِی الفِتنۃِ۔