کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 37
یہ تشبیہ اصل استخلاف میں ہے ۔ اس لیے کہ موسی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو تمام بنی اسرائیل پر نائب بنایا تھا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ تھوڑے سے مسلمانوں پر اپنا نائب بنایا تھا۔جب کہ باقی سارے لوگوں کو آپ اپنے ساتھ جہاد پر لے گئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اگر ہارون علیہ السلام کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابراہیم و عیسیٰ رحمہم اللہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت نوح و موسیٰ رحمہم اللہ کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چاروں پیغمبر حضرت ہارون علیہ السلام سے افضل تھے۔ مزید براں حضرت ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما ہر دو کو دو دوانبیاء کے مشابہ قراردیا ہے، ایک کے نہیں ۔ بنا بریں یہ تشبیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تشبیہ سے عظیم تر ہے۔ نیز یہ کہ استخلاف علی رضی اللہ عنہ میں دیگر صحابہ بھی ان کے سہیم و شریک تھے مگر اس تشبیہ میں کوئی صحابی حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہماکا شریک نہیں ۔ لہٰذا یہ تشبیہ کسی طرح بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت قرار نہیں دی جا سکتی۔ ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ [صحابہ کہتے ہیں :]ہم آپس میں چہ می گوئیاں کرنے لگے ۔ [جب صبح ہوئی تو]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں ۔آپ نے[ان کی آنکھوں میں لعاب ڈالا ] اور پھر انہیں جھنڈا عطا کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر فتح عطا کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں روایت کردہ احادیث میں سب سے صحیح حدیث ہے۔اسے امام بخاری اور امام مسلم نے کئی اسناد سے نقل کیا ہے۔مگر یہ وصف بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ یا ائمہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر متقی مؤمن سے محبت کرتے ہیں ؛ اور ہر متقی مؤمن اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ لیکن اس حدیث میں نواصب کابہترین ردّ ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بغض و عداوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ؛ آپ سے برأت [1]
[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سب باتیں سنیں اور کوئی جواب نہ دیا، لوگ طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرنے لگے کسی نے کہا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کریں گے، کسی نے کہا، عمر کی تجویز کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ کسی نے کہا، عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے قول پر عمل کریں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اورفرمایا: اﷲ تعالیٰ بعض لوگوں کے دل کو انتہائی نرم بنا دیتے ہیں اور بعض کا دل اتنا سخت ہوتا ہے کہ اس کے سامنے پتھر کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا، آپ کی مثال سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے، جنھوں نے فرمایا تھا:﴿مَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (سورۂ ابراہیم:۳۶) نیز آپ کی مثال سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جن کا ارشاد ہے:﴿ اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ﴾ (سورۃ المائدۃ:۱۱۸) پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: آپ کی مثال سیدنا نوح علیہ السلام جیسی ہے، جنھوں نے فرمایا تھا:﴿رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا﴾ (سورۂ نوح:۲۶) نیز آپ کی مثال سیدنا موسیٰ علیہ السلام جیسی ہے، انھوں نے فرمایا تھا:﴿ رَبِّ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَ لِیْمَ﴾ (سورۂ یونس:۸۸) پھر آپ نے فرمایا: چونکہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت کمزور ہے، اس لیے کفار یا تو فدیہ ادا کریں یا انھیں قتل کردیا جائے۔