کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 362
ہیں یا مامور؟[1] توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایا:مامور۔اس حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے۔اور آپ کے حکم کی ایسے ہی پیروی کیا کرتے تھے جیسے باقی مسلمان آپ کے حکم کے تابعتھے۔اس حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے باقی لوگوں کے ساتھ مل کر جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے منادی کی۔[ البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت سورۂ توبہ کے احکام کو پہنچانا اور پھیلانا ہے۔] [2]
جبکہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ولایت کے علاوہ دوسرے لوگوں کی ولایت میں دوسرے لوگ بھی برابر کے شریک ہوا کرتے تھے۔ جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت ۔اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت میں دوسرے لوگ بھی شریک ہیں ۔ بخلاف ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ؛یہ ولایت آپ کی خصوصیت شمار ہوتی ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو امیر مقرر نہیں فرمایا ؛ نہ ہی عمرو بن عاص کو اور نہ ہی اسامہ بن زید کو ۔ رضی اللہ عنہما۔۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو آپ پر امیر بنانے کاقصہ محض جھوٹ ہے۔اس کے جھوٹ ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ جہاں تک حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے واقعہ کا تعلق ہے؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ ذات سلاسل میں ان کو بنی عذرہ کی جانب بھیجا تھا۔ [3]
یہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ننھیال کا قبیلہ تھا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم متوقع تھے کہ یہ لوگ آپ کی اطاعت اختیار کر کے اسلام قبول کرلیں گے۔ پھر ان کے بعد حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کیا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہمابھی آپ کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’ ایک دوسرے کی اطاعت کریں اور آپس میں اختلاف پیدا نہ کریں ۔‘‘ [4]
[1] سیرۃ ابن ہشام(ص:۶۱۲)، تفسیر طبری(۱۴؍۱۰۷)
[2] اس کے دو سبب تھے جن کی جانب قبل از یں اشارہ کیا جا چکا ہے۔(۱) اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ سورۂ توبہ میں مشرکین کے ساتھ باندھے ہوئے سابقہ عہد وپیمان کو توڑنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ عربوں کے یہاں دستورتھا کہ عہد شکنی کا اعلان حاکم خود کرتاتھا یا اس کا کوئی قریبی رشتہ دار۔ لہٰذا رشتہ دار ہونے کی بنا پر یہ خدمت سیدنا علی کو تفویض ہوئی۔ (۲) اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ سورۂ توبہ میں اﷲ تعالیٰ نے سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش فرمائی ہے، ارشاد ہوتا ہے:﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَافِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾(التوبۃ:۴۰) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ان فضائل و مناقب کااظہار ان کے بھائی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہو۔ ہمیں روافض میں سے ایسے لوگوں کا علم ہے کہ اگر قرآن کریم میں یہ آیت نہ ہوتی تو وہ اسلام چھوڑ کر یہودی یا مجوسی ہو جاتے۔‘‘
[3] صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ ذات السلاسل، (ح: ۴۳۵۸) ،صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل ابی بکر الصدیق (ح: ۲۳۸۴)۔
[4] البخاری فِی ِکتابِ الأحکامِ والجِہادِ والأدبِ والمغازِی ؛فِی طبعِ د۔ البغا فِی الأرقامِ: 2873، 4086 ۔ 4088، 5773، 6751 ؛ وہو فِی مسلِم 3؍1358،؛ کتاب الجِہادِ والسِیرِ باب فِی الأمرِ بِالتیسِیرِ وترکِ التنفِیرِ ؛ وہو فِی المسندِ ط۔ الحلبِیِ 4؍41۔