کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 36
یہ حدیث صحیح ہے اورامام مسلم نے اسے روایت کیا ہے۔[1] اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تین فضائل بیان ہوئے ہیں : مگر اس میں ائمہ کی کوئی خصوصیت نہیں ۔اورنہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت ہے۔یہ قول کہ : بعض غزوات میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں چھوڑ کر گئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:’’ اے علی! تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔بس صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘ ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ حاکم مدینہ مقرر کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہیں ،اور نہ ہی آپ کو نائب مقرر کرنا دوسروں کو نائب مقرر کرنے سے زیادہ کامل ہے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ عرض کی تھی : آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟اس لیے کہ ہر غزوہ میں مدینہ میں کچھ نہ کچھ مرد مہاجرین و انصار میں سے موجود رہتے تھے؛ سوائے غزوہ تبوک کے ۔اس موقع پر آپ نے تمام لوگوں کو کوچ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس موقع پر مدینہ میں وہی لوگ باقی رہ گئے تھے جو یا تو معذور تھے ‘ یا بچے اور عورتیں یا پھر منافق؛ اوروہ لوگ جو غلطی یاسستی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پیچھے رہ جانے کو اچھا نہ سمجھا‘ اور عرض کیا : ’’کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ یعنی آپ مجھے ساتھ کیوں نہیں لے جارہے ‘ پیچھے کیوں چھوڑ رہے ہیں ؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ : پیچھے رہنے میں کوئی نقص یا عیب نہیں ۔ بیشک موسی علیہ السلام نے بھی اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو پیچھے اس وجہ سے چھوڑا تھا کہ وہ آپ کے نزدیک امانت دار تھے۔ایسے ہی میں بھی آپ کو پیچھے اس لیے چھوڑ کر جارہا ہوں کہ آپ میرے نزدیک امانت دار ہیں ۔مگر اتنا فرق ہے کہ موسی علیہ السلام نے اپنے بعد نبی کو پیچھے چھوڑا تھا ‘ اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘[2]
[1] صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۳۲؍۲۴۰۴) [2] یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں ملاحظہ کی جائے۔ (۱) مسند احمد:۱؍۳۸۳، ح:۳۶۳۲۔(۲) مستدرک حاکم (۳؍۲۱،۲۲) (۳) ترمذی کتاب تفسیر القرآن۔ سورۃ الانفال(ح:۳۰۸۴) و سندہ ضعیف لانقطاعہ۔ ابوعبیدہ کا اپنے والد عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔ (۴) تفسیر ابن کثیر(۴؍۹۴۔۹۵)، (۵) مسند ابی یعلی(۲؍۲۴۱)، (۶) دلائل النبوۃ(۳؍۱۳۸) ابن کثیر البدایۃ والنہایہ(۳؍۲۹۷۔۲۹۸) پر لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیدیوں کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲ !یہ آپ کی قوم و قبیلہ کے لوگ ہیں انھیں زندہ رہنے دیجیے ممکن ہے کہ اﷲان کو توبہ کی توفیق عطا کرے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:’’ان لوگوں نے آپ کی تکذیب کی اور آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا، لہٰذا ان کو تہ تیغ کردیجیے۔‘‘ عبد اﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ ان کو نذر آتش کردیجیے۔‘‘ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ آپ نے قطع رحمی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘ (