کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 35
(( لأعطین الرایۃ غداً رجلاً یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ و رسولہ۔)) ’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ ہم آپس میں چہ می گوئیاں کرنے لگے ۔[جب صبح ہوئی تو]نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں ۔آپ نے [ان کی آنکھوں میں لعاب ڈالا ] اور پھر انہیں جھنڈا عطا کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر فتح عطا کی۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَ اَبْنَآئَ کُمْ﴾ [آل عمران ۶۱] ’’پس آپ فرما دیجیے : آئیے !ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ ۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؛ فاطمہ ؛ حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا ؛ اورفرمایا؛ ’’ اے اللہ ! یہ میرے اہل بیت ہیں ۔‘‘ [شیعہ نے یہ حدیث تفصیلاً ذکر کی ہے اور قبل ازیں یہ بیان کی جا چکی ہے]۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب ]: خطیب اعظم خوارزمی کی اس بارے میں ایک کتاب ہے ؛ اس میں اتنی جھوٹی روایات ہیں جن کا من گھڑت ہونا کسی ادنی علم رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ۔علماء حدیث کی تو بات ہی کچھ دیگر ہے۔نیز خطیب خوارزمی کا شمار محدثین میں نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا یہ مقام و مرتبہ ہے کہ دقیق علمی مسائل میں اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس نے وہ روایات نقل کی ہیں جن کے بارے میں تمام محدثین جانتے ہیں کہ یہ من گھڑت اور جھوٹی روایات ہیں ۔رافضی مصنف نے اپنی کتاب کے شروع میں دعوی کیا تھا کہ وہ اپنی کتاب میں وہی روایات نقل کرے گا جو اہل سنت والجماعت کے ہاں صحیح ہوں گی۔ اور انہوں نے اپنی معتمد کتابوں اور معتمد اہل علم کے اقوال سے نقل کیا ہوگا۔ تو پھروہ ایسی روایات کیونکر ذکر کرتا ہے جن کے من گھڑت اور جھوٹ ہونے پر تمام اہل سنت کا اجماع ہے۔جب کہ معتمد کتب ِ احادیث سے کوئی بھی روایت ہی نقل نہیں کی۔ اور نہ ہی کوئی ایسی روایت ہے جسے ائمہ محدثین نے صحیح کہا ہو۔ یہ دس روایات جو اس نے ذکر کی ہیں ؛ شروع سے لیکر آخرتک دس کی دس روایات محض جھوٹ ہیں ۔سوائے عمرو بن عبدود کے قتل کے واقعہ کے۔ ۱۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا بیان کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے انھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے کا حکم دیا، مگر انھوں نے انکار کردیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی کہ تم علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کو گالی کیوں نہیں دیتے؟ تو بتایاکہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتیں بتائی تھیں ،اس وجہ سے میں ہر گز آپ کو گالی نہیں دوں گا؛اور اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہو جائے تو وہ سرخ اونٹوں سے بڑھ کر ہے....الخ۔