کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 335
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کی رکعات کو اس قدر طویل ادا فرمایا کہ جماعت والی کوئی دوسری نماز اس قدر طویل نہیں فرمائی۔ اور آفتاب کے گہنا جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، ذکر، دعا، صدقہ، استغفار او رغلاموں کے آزاد کرنے کا حکم دیا تھا۔[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’رب تعالیٰ ان دونوں نشانیوں کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں ‘‘ یہ رب تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرح ہے:
﴿وَ مَا نُرْسِلُ بِالْاٰیٰتِ اِلَّا تَخْوِیْفًاo﴾ (الإسراء: ۵۹)
’’اور ہم نشانیاں دے کر نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کے لیے۔‘‘
اسی لیے ’’آیات‘‘ کے ظہور پر عموماً نمازیں ادا کرنا مشروع قرار دیا گیا ہے۔ جیسے ستاروں کا ٹوٹنا، زلزلے وغیرہ اور تخویف اسی چیز کے ذریعے ہوتی ہے جو ڈرانے والے شر کا سبب ہو۔ جیسے زلزلہ، آندھی۔ وگرنہ جس چیز کا عدم اور وجود یکساں ہو اس کے ذریعے تخویف حاصل نہیں ہوتی۔پس یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کسوف باعث شر ہے۔ پھر کبھی اس سے شر ظاہر بھی ہو جاتا ہے۔ اور کسوف میں بھی وہی قول ہے جو دیگر سارے اسباب کی بابت ہے۔ کہ آیا یہ سبب ہی ہے؟ جیسا کہ جمہور امت کا قول ہے۔ یا پھر یہ محض اقترانِ عادت ہے جیسا کہ جہمیہ کا قول ہے؟
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسباب شر کے وقوع کے وقت ان عبادات کی خبر دی ہے جن کے ذریعہ ان اسباب شر کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ عبادات یا تو اس خیر کو قوی کرتی ہیں جس کا سبب منعقد ہو چکا ہے، یا پھر اس شر کے سبب کو دور کر دیتی ہیں ، یا اس شر کو کمزور کر دیتی ہیں جس کا سبب منعقد ہو چکا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’دعا اور بلاء ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو زمین اور آسمان کے درمیان ایک دوسرے سے جھگڑتی ہیں ۔‘‘[2]
اس بات کا اعتراف فلاسفہ کو بھی ہے۔ لیکن ان کا یہ اعتراف کیا اس بنا پر ہے کہ رب تعالیٰ اس بلا کو اپنی حکمت و قدرت سے ہٹاتا ہے، یا یہ اقرار اس بنا پر ہے کہ قوائے نفسانیہ اثر انداز ہوتے ہیں ؟ اس باب میں ان لوگوں کا یہ اقرار ان کے خودساختہ اصول پر مبنی ہے۔بطلیموس[3] کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا یہ قول ہے: ’’عبادت گاہوں میں مختلف زبانوں میں آوازوں کا شور افلاکِ مستدیرہ کی گرہوں کو کھول دیتا ہے۔‘‘
[1] دیکھیں : ارواء الغلیل: ۳؍۱۲۶۔۱۳۲۔ اس مقام پر اس بارے وارد احادیث کا اور شیخ البانی رحمہ اللہ کی ان پر تعلقات کا مفصل ذکر ہے۔
[2] مجھے یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ تو نہیں ملی۔ البتہ ’’الترغیب‘‘ (۳؍۱۴۲ طبعۃ مصطفی محمد عمارۃ) میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’کوئی احتیاط (اور تدبیر) تقدیر کے بالمقابل کام نہیں آتی اور دعا اترنے والی مصیبت میں اور جو ابھی تک نہیں اتری اس میں کام آتی ہے اور بلا اترتی ہے تو دعا سے ملتی ہے۔ سو یہ دونوں قیامت تک لڑتی رہیں گے۔‘‘ امام منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث کو بزار، طبرانی اور حاکم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔ حاکم رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔
[3] بطلیموس قلوذی۔ مشہور عالم افلاک۔ فلکیات کے موضوع پر لکھی مشہور کتاب ’’المجسطی‘‘ اسی بطلیموس کی تصنیف ہے۔ ریاض میں امامت کا درجہ رکھتا تھا۔ آن جہانی نے دو رومی شہنشاہوں ’’اَنْدَرْیَاسیُوس‘‘ اور ’’اَنْطَمْیُوْس‘‘ کا زمانہ پایا۔ ’’اَیْرَقْس‘‘ (