کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 32
۳۔ یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہی مرتبہ حاصل ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے۔
۴۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس انسان کا دوست ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کے دوست ہوں ۔ اس لیے کہ ہر مؤمن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی رکھتا ہے۔
۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سورۂ توبہ کو لے کر مکہ جانا؛ کیونکہ بنی ہاشم کے علاوہ کوئی یہ سورت مکہ نہیں پہنچا سکتا۔اس میں سارے بنی ہاشم مشترک ہیں ۔ان میں سے کوئی بات بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سورۂ توبہ دے کر مکہ بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ نقض عہد کی اطلاع دینے کے لیے حاکم اعلیٰ کے قبیلہ کا کوئی شخص جایا کرتا تھا۔ اس سورۃ میں بھی نقض عہد کی اطلاع دی گئی ہے، اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکہ جانا ضروری تھا۔[1]
دسویں فصل: ....شیعہ کی وضع کردہ احادیث؛ خطیب خوارزمی کی روایت
[شبہ] : شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’خطیب اعظم خوارزمی [2]نے یہ روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ اے علی! اگر کوئی شخص اس قدر عرصہ دراز تک اﷲکی عبادت کرے جتنا عرصہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم میں ٹھہرے تھے اور احد پہاڑ جتنا سونا اﷲکی راہ میں صرف کرے؛ اور پا پیادہ ایک ہزار مرتبہ حج کرے ؛پھر بحالت مظلومی صفاء و مروہ کے مابین مارا جائے؛ اوراے علی ! وہ تجھے دوست نہ رکھتا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی
نہ سونگھے گا اور نہ وہ اس میں داخل ہوگا۔‘‘[مزید من گھڑت روایات ملاحظہ فرمائیں ]:
۱۔ ایک شخص نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اتنی شدید محبت رکھتے ہیں ؟ انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ’’ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔اور
[1] یہ بات غلط ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سورۂ توبہ لے کر گئے اور پھر انھیں معزول کرکے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا۔ اصل واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کیا تھا اور آپ بہمہ وجوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی یا عدم موجودگی میں اس کے اہل تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ سے رخصت ہو چکے تھے کہ سورۂ توبہ نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ سورۃ دے کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جانب بھیجا، اس کے دو اسباب تھے، پہلی وجہ ذکر کی جا چکی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس سورۃ میں یہ آیت بھی ہے:﴿ اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْہُمَا فِی الْغَارِ﴾ اس آیت میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جو مدح و ثنا بیان کی گئی ہے، وہ اس وقت تک باقی ہے، جب تک قرآن دنیا میں موجود ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اس عظیم سورۃ کو لے کر جانا جو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت پر مشتمل ہے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی دلیل اور ان لوگوں کے لیے ابدی ذلت کا موجب ہے جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے دل میں بغض و عداوت رکھتے ہیں ۔‘‘
[2] اخطب خوارزم(خطیب اعظم خوارزمی) ایک شیعہ ادیب ہے، یہ زمخشری کا شاگرد تھا۔ اس کا نام الموفّق بن احمد بن اسحاق (۴۸۴۔ ۵۶۸) ہے۔ دیکھیے: بغیۃ الوعاۃ، ص: ۴۰۱، نیز روضات الجنہ طبع ثانی،ص:۷۲۲۔ اخطب خوارزم کی کتاب کا نام ’’مناقب اہل البیت‘‘ ہے۔ مقام افسوس ہے کہ غریب اہل بیت کی مدح میں شیعہ نے جھوٹی روایات وضع کرکے ان پر کتنا بڑا ظلم ڈھایا ہے۔‘‘