کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 31
سارے غزوات [و واقعات ] میں حضرت علی رضی اللہ عنہ مفضول ہوں اور ایسے ہی حج و عمرہ کے موقع پر بھی۔ پھر باقی غزوات کے موقع پر خلیفہ مردوں پر بنایا جاتا تھا ؛ جب کہ غزوہ تبوک کے موقع پر معذوروں ؛عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنایا گیا۔اس وقت مدینہ میں [صحیح سالم اورتندرست] اہل ایمان میں سے صرف وہی تین مرد پیچھے رہ گئے تھے[ جن کی معافی کا اعلان اللہ تعالیٰ نے کیا ہے ] یا پھر وہ انسان باقی تھا جس پر منافق ہونے کی تہمت ہو۔ اس وقت مدینہ میں ہر لحاظ سے امن و امان تھا۔ اہل مدینہ کو کسی طرف سے کوئی خوف نہیں تھا اور پیچھے رہ جانے والوں کو جہاد کی ضرورت نہیں تھی۔جس طرح کہ باقی اکثرمواقع پر ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح شیعہ کی پیش کردہ حدیث ((سُدُّوا الْاَبْوَابَ اِلَّا بَابَ عَلِیٍّ)) [1] روافض کی طرف سے بطور مقابلہ اپنی گھڑی ہوئی ہے۔
جبکہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا:
’’میں سب لوگوں سے زیادہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال او ررفاقت کاممنون ہوں ۔‘‘اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی شخص کی کھڑکی مسجد کی جانب کھلی نہ رہے۔‘‘[2]
شیعہ کی پیش کردہ حضرت ابن عباس کی روایت’’اَنْتَ وَلِیِّیّ فِیْ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِی‘‘ باتفاق محدثین موضوع ہے ۔[3]
صحیح حدیث میں جن دیگر امور کا ذکر کیا گیا ہے اس میں نہ تو ائمہ کی کوئی خصوصیات ہیں اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی
خصوصیات؛بلکہ ان میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک ہیں ؛ مثلاً:
۱۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اﷲ و رسول کو چاہتے ہیں ؛ اور اللہ اور اس کا رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چاہتے تھے۔
۲۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کرنا۔[4]
[1] أورد ابن الجوزِیِ ہذا الجزء مِن حدِیثِ عمرِو بنِ میمون فِی الموضوعاتِ:۱؍۳۶۴وحکم علیہِ بِالوضعِ:۱؍۳۶۶، وذکر أن ہذا الحدِیث مِن ہذا الطرِیقِ وغیرِہِ حدِیث موضوع ثم قال: فہذِہِ الأحادِیث کلہا مِن وضعِ الرافِضۃِ قابلوا بِہا الحدِیث المتفق علی صِحتِہِ فِی: سدوا الأبواب ِإلا باب أبِی بکر۔
[2] بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۳۶۵۴)مسلم، (ح:۲۳۸۲)۔
[3] جاء ہذا الحدِیث فِی ِکتاب فضائل الصحابۃ:۱؍۵۰۳، رقم:۵۲۱، ۱؍۵۲۴، رقم:۸۶۸ وقال المحقِق:۱؍۵۰۳، موضوع وفِیہِ متروکانِ متہمانِ بِالوضعِ: طلحۃ وعبیدۃ۔ وجاء الحدِیث فِی حقِ عثمان بنِ عفان رضِی اللّٰہ عنہ فِی الموضوعاتِ:۱؍۳۳۴، البِدایۃِ والنِہایۃِ:۷؍۲۱۳ وغیرِہا مِن المراجِعِ، وذکر المحقِق أن ہذا الحدِیث أیضاً موضوع۔
[4] ہم قبل ازیں تحریر کر چکے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو صرف ایک ہی مرتبہ حاکم مدینہ مقرر کیا گیا تھا۔ جب کہ دیگر صحابہ کو متعدد مرتبہ یہ خدمت تفویض ہوئی تھی جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اگر حاکم مدینہ کا سب لوگوں سے افضل ہونا ضروری ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ جب بھی کوئی دوسرا حاکم مقرر کیا گیا سیدنا علی اس وقت مفضول تھے۔ مزید براں دوسرے صحابہ کی حاکمیت مدینہ کے زمانہ میں وہاں سب مومن موجود ہوا کرتے تھے، مگر جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا گیاتو عورتوں اور بچوں کے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس سے افسردہ خاطر ہوئے اور اسے اپنی توہین پر محمول کیا۔ اس وقت مدینہ مامون تھا، اسے کوئی خطرہ لاحق تھا نہ وہاں جہاد کی ضرورت تھی۔