کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 295
حاصل ہوتی ہے۔ البتہ وہ لذت زیادہ کامل ہو گی۔ یہ قول فلاسفہ، صفاتِ باری تعالیٰ کی نفی کرنے والے متصوفین جیسے فارابی، ابو حامد اور ان جیسے لوگوں کا قول ہے۔ کیونکہ ان حضرات کی کتابوں جیسے ’’الحیاء‘‘ وغیرہ میں لکھا ہے کہ رب تعالیٰ کے چہرے کی طرف دیکھنے کی لذت اسی معنی میں ہے۔[1] فلاسفہ لذتِ عقلیہ کو ثابت کرتے ہیں اور ابو نصر فارابی اور ان جیسے دوسرے فلاسفہ رؤیت باری تعالیٰ کو ثابت کرتے ہیں ۔ البتہ اس کی تفسیر وہ اس مذکورہ معنی کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ابو المعالی اور ابن عقیل وغیرہ تو وہ لوگ رب تعالیٰ کو دیکھنے سے لذت کے حصول کے منکر ہیں اور یہ لذت موت کے بعد بھی ثابت ہے۔ البتہ یہ لوگ اس لذت کو ثابت کرنے سے قاصر ہیں جیسا کہ وہ لوگ دیگر لذات کو ثابت کرنے سے قاصر ہیں ۔ ہم نے ایک دوسری جگہ اس کو مفصل ذکر کر دیا ہے۔ اب ابو المعالی جو رؤیت باری سے لذت کے حصول کے منکر ہیں ، کہتے ہیں : یہ بات ممکن ہے کہ رب تعالیٰ کو دیکھنے کے ساتھ جنت کی بعض مخلوقات کے ذریعے لذت حاصل ہو۔ تو یہ لذت جو بعض مخلوق کے ذریعے ملی ہے، یہ رب تعالیٰ کی طرف دیکھنے کے ساتھ ہو گی۔ ابن عقیل نے ایک آدمی کو یوں دعا مانگتے سنا: ’’اے اللہ! میں تجھ سے تیری طرف دیکھنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں ‘ تو ابن عقیل نے کہا: اچھا فرض کرو کہ اللہ کا چہرہ ہے تو کیا تم اس کی طرف دیکھنے کے ذریعے لذت حاصل کرو گے؟ یہ ابن عقیل کے منکر اقوال و آراء ہیں اور وہ اپنی آراء میں بہت رنگ بدلتے تھے۔ کیونکہ موصوف بڑے ذہین اور عالم فاضل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اقوال میں جہمیہ اور معتزلہ کے ہم رنگ اقوال بھی مل جاتے ہیں ، جن میں سے ایک مذکورہ قول بھی ہے۔ اسی طرح ابو المعالی نے بھی اس قول کی بنا پر جہمیہ کی اس اصل پر رکھی ہے جس میں اشعری اور اس کے ہم نوا جیسے
[1] امام غزالی ’’الاحیاء‘‘ (۱۴؍۶۲۔۷۶) میں اللہ کی طرف دیکھنے کی لذت پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’جان لے کہ لذات یہ ادراکات کے تابع ہوتی ہیں ۔ اس کی تفصیل ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : ’’یہیں سے معلوم ہو گیا کہ علم بھی لذیذ ہے اور سب سے لذیذ تر علم، رب تعالیٰ کی ذات کا اور اس کی صفات و افعال کا اور اس کا اپنی مملکت میں جو عرش کی انتہا سے لے کر زمینوں کی حدوں تک ہے، تدبیر کرنے کی معرفت کا علم ہے اور یہ بات جان لینا ازحد مناسب ہے کہ معرفت کی لذت یہ شہوت و غضب وغیرہ کی دیگر تمام لذات سے زیادہ قوی ہوتی ہے‘‘ آگے لکھتے ہیں : جان لے کہ مدرکات کی دو قسمیں ہیں : (۱) ایک وہ جو خیال میں آ جاتے ہیں ۔ (۲) اور دوسری قسم کے مدرکات وہ ہیں جو خیال میں نہیں آتے۔ جیسے رب تعالیٰ کی ذات اور ہر وہ چیز جس کا وجود نہ ہو۔ جیسے علم اور قدرت وغیرہ۔‘‘ آگے لکھتے ہیں ’’اور وہ جنت کا مستحق ہو جاتا ہے اور اس وقت کو پا لیتا ہے۔ لیکن وہ وقت مبہم ہے کیونک اس میں رب تعالیٰ کی تجلی ہو گی اور یہ تجلی کا انکشاف اس کے علم کے مطابق ہو گا۔ جیسا کہ آدمی کے خیال کے اعتبار سے شیشہ میں تجلی ہوتی ہے اور یہی وہ مشاہدہ اور تجلی ہے جس کا نام رؤیت ہے۔