کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 287
میرے ساتھ ہیں اور میری آنکھ انھیں ڈھونڈتی ہے حالانکہ وہ میری آنکھ کی سیاہ پتلی میں رہتے ہیں اور میرا دل ان کا مشتاق ہے حالانکہ وہ میری پسلیوں میں یعنی میرے سینے میں رہتے ہیں ۔‘‘
[کیااللہ تعالیٰ مؤمن کے دل میں ہے؟]
اور قائل کا یہ قول بھی اسی باب سے ہے: ’’قلب یہ رب کا گھر ہے۔‘‘ اور ان کا یہ قول بھی جو کہ اسرائیلیات میں سے ہے، اسی باب سے ہے کہ ’’نہ تو میری زمین مجھے سما سکتی ہے اور نہ میرا آسمان لیکن میرے ایک مومن متقی، پاک دامن متورع اور نرم بندے کا دل مجھے سما لیتا ہے۔‘‘[1] یہاں بھی یہ مراد نہیں کہ رب تعالیٰ کی ذات ہر مومن بندے کے دل میں بستی ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ بندوں کے دلوں میں اس کی معرفت، محبت اور عبادت ہوتی ہے۔
اب خواب میں آدمی دوسرے کو اپنے سے ہم کلام اور مخاطب ہوتے دیکھتا ہے اور یہ نظر آنے والا اس کے گھر میں ہوتا ہے یا اپنی قبر میں مردہ ہوتا ہے، تو دراصل یہ اس کی مثال ہوتا ہے۔ اسی طرح آئینہ میں دیکھے جانے والے شمس و قمر اور نجوم و کواکب کا حال ہے۔ پھر بڑے آئینہ میں ان کے وجود بڑے، چھوٹے میں چھوٹے، گول میں گول اور صاف میں صاف ہوتے ہیں ۔ یہ آئینہ سے قائم نظر آنے والی چیزوں کی مثال ہے۔ رہا آسمانوں میں موجود آفتاب کا وجود تو وہ چل کر آئینہ میں نہیں آ گیا۔
ایک دفعہ ان حضرات کے ایک شیخ نے مجھ سے اسی قسم کی باتیں کیں ، وہ یہ گمان کرتا تھا کہ حلاج نے ’’انا الحق‘‘ اس لیے کہا تھا کہ وہ توحید کی اسی قسم کا مالک تھا۔ وہ شیخ کہتے ہیں کہ حلاج اور فرعون میں یہ فرق ہے کہ فرعون نے تو﴿اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی﴾ (النازعات: ۲۴) ’’پس اس نے کہا میں تمھارا سب سے اونچا رب ہوں ۔‘‘ کہا تھا اور خود اپنی ذات کی طرف اشارہ کیا تھا جبکہ حلاج اپنی ذات سے فنا ہو چکا تھا اور اب اس کی زبان پر ناطق ’’حق‘‘ تھا۔
اس پر میں نے پوچھا: اچھا کیا پھر حق تعالیٰ اس کے قلب میں تھے جو اس کی زبان سے بول رہے تھے۔ جیسا کہ ایک جن مرگی زدہ کی زبان سے بولتا ہے؟ یاد رہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ حلاج وغیرہ مخلوقات کے دل سے جدا ہے بھلا حلاج وغیرہ کا دل رب تعالیٰ کو کیونکر سما سکتا ہے۔ پھر جن انسان کے بدن میں گھس کر اسے اس کے جملہ اعضاء سے غافل کر کے انھیں استعمال کرتا ہے۔ پس جن اس کی زبان سے جو بولتا ہے اور وہ اس کے اعضاء کے ساتھ جو کچھ کرتا ہے آدمی کو ان کی کوئی
[1] امام عجلونی ’’کشف الخفاء‘‘ (۲؍۱۹۵) میں لکھتے ہیں : امام غزالی نے ’’الاحیاء‘‘ میں یہ بات ان الفاظ کے ساتھ کہی ہے: رب تعالیٰ فرماتے ہیں : مجھے نہ تو میرا آسمان سما سکا اور نہ میری زمین، البتہ میرے مومن نرم اور امین بندے کے دل نے مجھے سما لیا۔‘‘ علامہ عراقی اس قول کی تخریج میں کہتے ہیں : میں نے اس کی کوئی اصل نہیں دیکھی، اور زرکشی کی پیرو صاحب ’’الدرر‘‘ نے بھی اس قول کی موافقت کی ہے۔ عجلوم امام ابن تیمیہ کا کلام نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’یہ قول اسرائیلیات میں مذکور ہے۔ اس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معروف اسناد نہیں ۔‘‘ آگے فرماتے ہیں : صاحب ’’المقاصد‘‘ اپنے شیخ کے ’’الآلی‘‘ میں مذکور قول کی پیروی میں کہتے ہیں : ’’اس قول کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی معروف اسناد نہیں ۔ علامہ سیوطی نے ’’الدرر المنتشرۃ فی الاحادیث الشتہرۃ‘‘ (ص ۱۷۵) میں یہ حدیث ذکر کی ہے۔ کتاب ہذا کے محقق دکتور محمد بن لطفی الصباغ اس حدیث کی تعلیق میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ حدیث ’’احادیث موضوعہ‘‘ میں درج کی جانی چاہیے تھی۔