کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 272
رہی وہ فنا جسے صاحب ’’المنازل‘‘ نے ذکر کیا ہے؛ تو وہ توحید ربوبیت میں فنا ہے ناکہ توحید الوہیت میں ۔ موصوف اسباب و حکمتوں کی نفی کے ساتھ توحید ربوبیت کو ثابت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ قدریہ مجبرہ میں سے جہم بن صفوان اور اس کے پیروکاروں کا اور اشعری وغیرہ کا قول ہے۔ اور شیخ الاسلام رحمہ اللہ اگرچہ صفات باری تعالیٰ کے بارے میں جہمیہ کے سب سے زیادہ مخالف تھے؛ چنانچہ انھوں نے ’’الفاروق فی الفرق بین المثبتۃ و االمعطلۃ‘‘[1] اور ’’تکفیر الجہمیۃ‘‘[2] اور ’’ذم الکلام و اہلہ‘‘ جیسی کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ حتیٰ کہ آپ کو صفاتِ باری تعالیٰ کے اثبات میں غالی تک کہا جانے لگا تھا۔ لیکن افسوس کہ تقدیر کے بارے میں وہ جہمیہ کے ہم خیال تھے جو اسباب اور حکمتوں کی نفی کے قائل ہیں ۔ اب صفات میں کلام ایک الگ چیز ہے اور تقدیر میں کلام الگ چیز۔ موصوف کے نزدیک یہ فنا؛ بقاء کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ فنا یہ حکم ِرب کے ماسوا کی جو اس کے ارادۂ شاملہ سے ہوتا ہے ؛جو بلا مخصِّص کے دو متماثلین میں سے ایک کی تخصیص کرتا ہے،کی نفی ہوتی ہے۔ اسی لیے موصوف مذکورہ کتاب کے ’’باب التوبۃ‘‘[3]میں ’’لطائف اسرار التوبۃ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں : ’’تیسرا لطیفہ: ....بندے کا مشاہدہ ء حکم۔وہ اس بات کی گنجائش نہیں چھوڑتا کہ وہ کسی اچھی بات کو اچھا یا بری بات کو برا سمجھے۔ کیونکہ وہ ان تمام معانی سے اوپر ’’معنی حکم‘‘ تک پہنچا ہوا ہے۔‘‘ یہاں پرمراد حکم قدری ہے، یعنی رب تعالیٰ کا ہر چیز کو اپنی قدرت اور ارادہ سے پیدا کرنا۔ کیونکہ جو وجود میں رب تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے فرق کو ثابت نہیں کرتا، بلکہ یہ کہتا ہے کہ جو بھی رب تعالیٰ کے علاوہ ہے وہ اسے محبوب ہے، اس کا پسندیدہ اور اس کی مراد ہے، اس کے نزدیک برابر ہے؛کہ نہ کوئی شے اسے محبوب ہے اور نہ کوئی شے مبغوض ہے۔ کیونکہ اس کا مشاہدہ یہ ہے کہ رب تعالیٰ کی طرف نسبت کے اعتبار سے نہ تو کسی اچھی کا استحسان ممکن ہے؛ اور نہ بری چیز کی قباحت۔ کیونکہ اس مذہب کے مطابق کوئی شے اگر اچھی یا بری ہے تو بندے کے اعتبار سے ہے ناکہ رب تعالیٰ کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اچھی چیز وہ کہلائے گی جو بندے کے حال کے مناسب ہو اور بری چیز وہ ہو گی جو بندے کے حال کے غیر مناسب ہو گی۔ عین فنا میں وہ نہ تو اپنے وجود کی شہادت دیتا ہے اور نہ دوسرے کے وجود کی؛ بلکہ وہ صرف رب تعالیٰ کے فعل کی شہادت دیتا ہے؛ پس اس مشاہدہ کے وقت نہ تو کوئی چیز اچھی ہے اور ہی نہ بری ۔یہ ان قدریہ جہمیہ جبریہ کے نزدیک جو جہم بن صفوان اور اس کے ہم نواؤں کے پیروکار وں کے مذہب کے مطابق ہے۔
[1] محمد سعید افغانی نے ہروی کے بارے میں اپنی کتاب میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے اور ص ۱۰۲ پر لکھتے ہیں : ابن رجب نے ’’الذیل علی طبقات الحنابلۃ‘‘ میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ اسماعیل پاشا (۱؍۴۵۲) اور علامہ سبکی نے بھی طبقات الشافعیۃ (۹؍۲۰) میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ [2] ہروی انصاری نے اپنی کتاب ’’ذم الکلام و اہلہ‘‘ میں اس کتاب کا ذکر کیا ہے۔ (دیکھیں : کتاب الافغانی، ص: ۱۰۵) [3] دیکھیں : منازل السائرین، ص: ۱۱۔