کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 271
دوسری باتوں کے شعور سے وہ عاجز ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ حق کو سن کر مرنے یا بے ہوش ہو جانے والا معذور ہوتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پہاڑ پر رب تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر بے ہوش ہو گئے تھے۔
البتہ یہ حال نہ تو ہر سالک کی غایت ہے اور نہ ہر سالک کو لازم ہے جیسے بعض لوگوں کا گمان ہے کہ ایسا ہر سالک کو لازم ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ۔ چنانچہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور سابقین اولین افضل ہیں لیکن یہ فنا ان حضرات میں سے کسی کو بھی لاحق نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ قرآن سنتے وقت نہ تو کسی کو موت کا حادثہ پیش آیا اور نہ وہ بے ہوش ہوا۔ یہ بے ہوشی وغیرہ تابعین میں شروع ہوئی تھی اور ان میں سے بھی بالخصوص بصریوں میں ۔
بعض لوگوں نے اسے سیر عارفین کا منتہی اور غایت قرار دیا ہے۔ یہ ماقبل مذکورہ مؤقف سے بھی زیادہ کمزور ہے۔ ابویزید بسطامی[1] کا یہ قول نقل کیا جاتا ہے: ’’(اس) جبہ میں صرف اللہ ہے‘‘ اور یہ کہ ’’بھلا ابو یزید کہا ہے؟ میں اتنے اتنے برسوں سے اسے تلاش کرتا پھر رہا ہوں ۔ وغیرہ وغیرہ۔[2] تو علماء نے ان اقوال کو اسی باب سے قرار دیا ہے۔ اسی لیے ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب وہ ہوش میں آتے تھے تو ان باتوں پر انکار کرتے تھے۔
بلاشبہ یہ اور اس جیسی دیگر باتیں کفر ہیں ۔ البتہ اگر کسی سبب سے عقل جاتی رہے تو آدمی ایسی باتوں میں معذور گردانا جاتا ہے۔ جیسے نیند اور بے ہوشی میں عقل زائل ہو جایا کرتی ہے اور غیر مکلف ہونے کی حالت پر آدمی کا مواخذہ نہیں ہوا کرتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی باتیں عقل و تمیز کے کمزور ہونے کی وجہ سے صادر ہوتی ہیں ۔
[1] یہ ابویزید طیفور بن عیسی بسطامی ہیں جو ’’بایزید‘‘ کے نام سے مشہور ہیں ۔ اپنے دور کے مشہور صوفی، متعدد و کثیر شطحیات کے مالک۔ زرکلی کہتے ہیں : بعض مستشرقین کا قول ہے کہ بایزید وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔ آپ کے متوسلین طیفوریہ یا بسطامیہ کہلاتے تھے۔ سن پیدائش ۱۸۸ھ اور سن وفات ۲۶۱ھ ہے۔ (دیکھیں: طبقات الصوفیۃ، ص: ۶۷۔۷۴۔ الطبقات الکبری: ۱؍۶۵۔۶۶، صفۃ الصفوۃ: ۴؍۸۹۔۹۴۔ شذرات الذہب: ۲؍۱۴۳۔۱۴۴)
[2] دکتور عبدالرحمان بدوی نے اپنی کتاب ’’شطحات الصوفیۃ‘‘ میں بایزید بسطامی کے متعدد شطحات کو ذکر کیا ہے اور ’’النور من کلمات ابی طیفور‘‘ نامی رسالہ کو اس میں شائع کیا ہے جو سلہجی کی طرف منسوب ہے۔ مجھے اس رسالہ میں یہ عبارت مذکور ملی ہے کہ ذی النون کے اصحاب میں سے ایک صاحب بایزید کے پاس آئے تو انھوں نے پوچھا: کسے تلاش کرتے ہو؟ اس نے کہا: ابو یزید کو۔ تو کہنے لگے: اے نوجوان! میں خود انھیں چالیس برس سے ڈھونڈ رہا ہوں ۔‘‘ اس آدمی نے لوٹ کر جب ذاالنون کو یہ بات سنائی تو وہ غش کھا کر گر پڑے۔‘‘ یہ عبارت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مذکورہ دوسری عبارت کے قریب قریب ہے۔ رہی پہلی عبارت تو وہ مجھے نہیں ملی۔ غالب یہ ہے کہ یہ منصور حلاج کی طرف منسوب عبارت ہے۔ (دیکھیں : المدخل الی التصوف الاسلامی للدکتور ابی الوفاء التفتازانی، ص: ۱۲۹، طبعۃ دار الثقافۃ، القاہرۃ: ۱۹۷۹) البتہ خود بایزید کی بھی ایسی ملتی جلتی عبارتیں ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بری عبارتیں ہیں ۔ جیسے بایزید کا یہ قول ’’سبحانی ما اعظم سلطانی‘‘ (میں پاک ہوں اور میری حکومت کتنی عظیم ہے۔) (شطحات، ص: ۱۱۱) اور جب ایک آدمی نے جب ان کے پاس یہ آیت تلاوت کی ’’ان بطش ربک لشدید‘‘ (بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے) تو کہنے لگے: رب تعالیٰ کی حیات کی قسم! میری پکڑ اللہ کی پکڑ سے بھی زیادہ سخت ہے۔ (شطحات، ص: ۱۱۱) اسی طرح بایزید کا یہ قول بھی ہے: ’’میں ایک مرتبہ بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا پس جب میں اس تک پہنچا تو کیا دیکھا کہ وہ تو میرا طواف کر رہا ہے۔‘‘ (شطحات، ص: ۱۰۸)