کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 26
تھے۔ [1] جب آپ سجدہ کرتے تو اسے نیچے چھوڑ دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے ۔
٭ ایک دفعہ حالت سجدہ میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ آکر آپ پرسوار ہو گئے[2]تو آپ نے سجدہ لمبا کردیا۔پھر بعد میں آپ نے فر مایا: ’’ میرے بیٹے کی وجہ سے مجھے سجدہ لمبا کرنا پڑا۔[3]
٭ آپ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو بوسہ دیا کرتے تھے۔
٭ جب آپ ایک لڑکے اور لڑکی کو اٹھا سکتے ہیں ۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ آپ کی کوئی خصوصیت ہے۔بلکہ اس معاملہ میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک ہیں ۔ جبکہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے اٹھایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھانے سے قاصر تھے۔
٭ بنا بریں اس واقعہ کو مناقب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شمارکرنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس پر مزید یہ کہ جو شخص نبی کو اٹھاتا ہے وہ اس سے افضل ہے جو نبی پر سوار ہو۔ جیسے طلحہ بن عبید اﷲ نے غزوہ احد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا تھا ۔[4]ظاہر ہے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا اس نے نبی کو فائدہ پہنچایا اور جو نبی پر سوار ہوا اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فائدہ حاصل کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ نبی کو فائدہ پہنچانے والا نفع حاصل کرنے والے کی نسبت بہت زیادہ افضل ہے۔
ساتویں فصل: ....ابن ابی لیلہ کی روایت :تین صدیق
[شبہ] : شیعہ معترض کہتا ہے: ’’ ابن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدیق تین ہیں :
(۱) حبیب نجار؛ آل یاسین کا مؤمن ۔(۲)حزقیل ؛ مومن آل فرعون(۳) اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ؛ آپ ان تینوں میں سب سے افضل ہیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: یہ روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ گھڑا ہوا ہے۔ احادیث صحیحہ میں آیاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کے لقب سے ملقب کیا۔[5]
[1] صحیح بخاری ۔ کتاب الصلاۃ باب اذاحمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ‘‘ (حدیث: ۵۱۶)، صحیح مسلم ، کتاب المساجد۔ باب جواز حمل الصبیان فی الصلوۃ(حدیث: ۵۴۳)۔
[2] سنن نسائی، کتاب التطبیق ۔ باب ھل یجوز ان تکون سجدۃ أطول من سجدۃ (ح:۱۱۴۲)
[3] رواہ النسائي ۲؍۱۸۲؛ أحمد ۳؍۴۹۳۔
[4] سنن ترمذی۔ کتاب المناقب ، باب مناقب ابی محمد طلحہ بن عبید اللّٰہ، (حدیث:۳۷۳۸)
قال التِرمِذِی: ہذا حدِیث حسن صحِیح غرِیب،والحدِیث فِی المسندِ ط۔المعارِفِ:۳؍۲۱ وصححہ أحمد شاِکر رحِمہ اللّٰہ، سیرۃ ابن ہشام:۳؍۹۱۔
[5] ستدرک حاکم(۳؍۶۲) عنِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :’’ اثبت حِراء، إِنہ لیس علیک ِإلا نبِی و صِدِیق و شہِید۔‘‘ و ورد الحدیث فِی: سننِ أبِی داود والتِرمِذِیِ وابنِ ماجہ والمسندِ، وقد سم الصحابۃ والتابِعون أبا بکر الصِدِیق۔ انظر سنن أبِی داود:۳؍۹۴، کتاب الجِہادِ باب فِی السلبِ یعطی للقاتِلِ، والحدِیث فِیہِ: عن أبِی قتادۃ رضِی اللّٰہ عنہ، وانظر أیضا: المسند ط۔ الحلبِیِ:۴؍۴، والأثر عن عبدِ اللہِ بنِ الزبیرِ رضِی اللّٰہ عنہ۔