کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 25
٭ قَطِیْعی[1]نے اپنے شیوخ کی روایات سے بھی امام احمد کی کتاب فضائل صحابہ پر اضافہ کیا ہے۔ قطیعی کا اضافہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔جیسا کہ آگے اس کا بیان آئے گا۔قطیعی کے شیوخ زیادہ تر امام احمد کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شیعہ کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ اس کتاب میں جب بھی کوئی حدیث دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ:’’ یہ امام احمد کی روایت کردہ ہے‘حالانکہ اس کاقائل قطیعی ہوتا ہے جس کے اساتذہ امام موصوف کے ہم طبقہ لوگوں سے روایات اخذ کرتے ہیں ۔ مسند امام احمد میں بھی آپ کے بیٹے عبد اﷲنے زیادات کی ہیں ۔ مسند احمد میں جہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مرویّات ذکر کی گئی ہیں ، وہاں عبد اﷲ نے خصوصی طور پر اضافہ کیا ہے۔[2]خلاصہ یہ کہ یہ حدیث کسی دجال کا کذب و دروغ ہے اور اﷲکی قسم یہ امام احمد کی بیان کردہ نہیں ، انھوں نے یہ حدیث اپنی مسند میں ذکر کی نہ فضائل صحابہ میں۔
چھٹی فصل: ....بیت اللہ سے بت توڑنے کی روایت
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’یزید بن ابی مریم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں آئے پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے کندھے پر سوار ہوئے۔ میں نے اٹھنا چاہا مگر نہ اٹھ سکا۔ آپ میری کمزوری دیکھ کر اتر آئے پھر آپ بیٹھے اور میں آپ کے کندھے پر سوار ہو گیا۔ آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں خانہ کعبہ پر چڑھ گیا۔ کعبہ پر تانبہ کی ایک مورتی تھی۔ میں نے اسے اکھاڑ کر پھینک دیا اور وہ ٹوٹ گئی۔ پھر ہم بھاگنے لگے: یہاں تک کہ ہم گھروں میں نظروں سے اوجھل ہو گئے؛ ہمیں خوف تھاکہ کہیں لوگ ہمیں پکڑنہ لیں ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں کہ بشرط صحت[3] اس واقعہ میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی جو ائمہ و خلفاء کے خصائص میں شمار ہونے کے قابل ہو۔ احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت نماز میں امامہ بنت ابی العاص کو اٹھائے ہوئے ہوتے
[1] بغداد کے گرد و نواح میں اراضی کے کچھ قطعات بے آباد پڑے تھے۔ عباسی امراء و حکام نے زمین کے وہ ٹکڑے بعض لوگوں کو جاگیر کے طور پر دے دیے تھے۔ زمین کے ہر ٹکڑے کو قطیعہ کہتے تھے اور اہل علم جن کو وہ جاگیریں ملی تھیں قَطِیعی کہلاتے تھے۔ امام احمد کی کتاب فضائل صحابہ پر جس نے اضافہ کیا ہے ممکن ہے وہ احمد بن جعفر بن ہمدان القطیعی المتوفی(۲۷۳۔۳۶۸) ہو۔ احمد بن جعفر نواح بغداد کی آبادی قطیعۃ الرقیق میں بودو باش رکھتے تھے۔
[2] حافظ ابن کثیر مقدمہ ابن الصلاح کے خلاصہ میں جس کا نام’’ الباعث الحثیث فی اختصار علوم الحدیث‘‘ ہے لکھتے ہیں :’’حافظ ابوموسیٰ محمد بن ابی بکر مدینی کا مسند امام احمد کے بارے میں یہ ارشاد کہ ’’اَنَّہٗ صَحِیْحٌ‘‘ ضعیف قول ہے اس لیے کہ مسند احمد میں نہ صرف ضعاف بلکہ موضوعات بھی ہیں ، مثلاً وہ احادیث جن میں مرو عسقلان نیز حمص کے نواحی شہر ’’ البرث الاحمر‘‘ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ۔ محدثین نے اس پر روشنی ڈالی ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں فضائل پر مشتمل احادیث اگرچہ بخاری و مسلم کی روایت کردہ احادیث کی طرح صحیح نہ بھی ہوں تاہم لوگ ازراہ تساہل ان کو قبول کرلیتے ہیں جس طرح ترغیب و ترہیب پر مشتمل ضعیف احادیث کو بھی قبول کرلیا جاتاہے۔‘‘
[3] مسند احمد(۱؍۸۴)۔ مستدرک حاکم(۲؍۳۶۶۔۳۶۷، ۳؍۵) من طریق ابی مریم عن علی ۔ و ابو مریم الثقفی ھو مجہول۔ وقال الذہبی۔ اسنادہ نظیف والمتن منکر۔‘‘