کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 24
تیرے لیے ایسے لوگ باقی رکھے ہیں جو تجھے رسوا کریں گے۔ یہ واقعہ امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے ۔
پانچویں فصل : ....حضرت علی رضی اللہ عنہ کووصی کہنا ابن سبا کی اختراع
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ ان دلائل میں سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی ذکر کردہ یہ روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے سلمان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیجیے کہ آپ کا وصّی کون ہے؟ جب سلمان نے یہ سوال کیا تو آپ نے جواباً فرمایا:’’ اے سلمان! حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصّی کون تھا؟‘‘ کہا ’’یوشع بن نون ‘‘ فرمایا :’’میرا وصی اور وارث علی بن ابی طالب [1] ہے؛ جو میرا قرض ادا کرے گا اور میرے وعدے پورے کرے گا ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب ]:ہم کہتے ہیں :یہ روایت باتفاق محدثین کذب و دروغ اور موضوع ہے[2] اور مسند احمدبن حنبل میں موجود نہیں ۔ امام احمد نے فضائل صحابہ میں ایک کتاب تصنیف کی تھی اس میں خلفاء اربعہ اور دیگر صحابہ کے فضائل و مناقب بیان کیے ہیں ۔ اس کتاب میں صحیح و ضعیف روایات سب جمع کردی ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ اس کتاب میں جو حدیث بھی ہو وہ صحیح ہو۔ مزید برآں ا س کتاب میں امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے عبد اﷲ رحمہ اللہ نے اپنی روایات کا اضافہ بھی کیا ہے۔
[1] مشہور شیعہ المامقانی نے اپنی کتاب’’ تنقیح المقال‘‘(۲؍۱۸۴) پر جرح و تعدیل کے ماہر شیعہ عالم محمد بن عمر الکشی سے روایت کیا جس نے سب سے پہلے اس فن میں کتاب تصنیف کی۔ محمد بن عمر کی تحریر کا لب لباب یہ ہے کہ بقول اہل علم عبد اﷲ بن سبا یہودی تھا۔ اسلام ظاہر کرکے اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے دوستانہ مراسم قائم کیے۔ ابن سبا جب یہودی تھا تو کہا کرتا تھا کہ یوشع بن نون سیدنا موسیٰ کے وصی تھے۔ اسلام لانے کے بعد وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصّی بتایا کرتا تھا۔‘‘ مشہور شیعہ عالم کا یہ بیان اس باب میں نص صریح کا حکم رکھتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وصی کا لقب ابن سبا نے اختراع کیا۔ چونکہ سابقاً ذکر کردہ سیدنا انس کی روایت بے بنیاد ہے اس لیے اس باب میں یقینی بات یہی ہے جو المامقانی نے الکشی سے نقل کی کہ اس لقب کا واضع ابن سبا یہودی تھا۔ اس روایت کے راوی جب شیعہ خود ہوئے تو اب یا تو وہ اپنے علماء کو جھوٹا کہیں یا یہ کہیں کہ الکشی نے علماء سے یہ روایت نقل کرنے میں دروغ گوئی سے کام لیا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں مزید کسی دلیل کی حاجت نہیں اور یہی بات کافی ہے کہ یہ روایت شیعہ علماء کی زبانی نقل ہوتے ہوتے ابن سبا سے الکشی تک پہنچی اورپھر المامقانی کے ذریعہ شیعہ جرح و تعدیل کی عظیم و جدید ترین کتاب میں مندرج ہوئی۔ یہ اسی روایت کا ثمرہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ انس و سلمان کا دامن اس تہمت سے پاک کردیا۔ بلکہ یوں کہیے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغام کو ایسے عیب سے داغ دار ہونے سے بچا لیا جس کی وجہ سے امت بنی نوع آدم میں سے ہونے والے اوصیاء کے زیر اثر سب تصرفات سے محروم ہوجاتی، اس پر طرہ یہ کہ ان میں سے آخری وصی ہنوز’’ لَم یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ‘‘ کا مصداق ہے، حالانکہ پیام اسلام دنیائے انسانیت کو حریت فکر و نظر کا عطیہ دینے کے لیے آیا تھا اور اس کا اوّلین مقصد یہ تھا کہ عقل انسانی اسلام کے اس چشمۂ صافی سے بکمال آزادی اور بدوں جبرو اکراہ ہدایت عظمی کا آب حیات پیئے جس پر اس عالمی شریعت کے سوا کسی کو نگران یا وصی مقرر نہیں کیا گیا۔
[2] ذکر الحدِیث ابن الجوزِیِ فِی الموضوعاتِ:۱؍۳۷۴، مِن أربعۃِ طرقِ، کلہا غیر صحِیح و موضوع، وتابعہ السیوطِی فِی اللآلیِئِ المصنوعۃِ: ۱؍۳۵۸۔