کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 23
﴿الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفَآئِزُوْنَ﴾ [التوبۃ ۲۰]
’’ جو لوگ ایمان لائے، ہجرت سے مشرف ہوئے اور اﷲکی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کیا، تو یہ لوگ بلاشبہ اﷲ کے نزدیک عالی مرتبت ہیں ۔‘‘
اس میں شبہ نہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مال و جان سے جہاد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں بڑھ کر تھا۔ جیسا کہ حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مجھ پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احسانات باقی سب لوگوں سے زیادہ ہیں ۔‘‘[1]
آپ نے یہ بھی فرمایا:
’’ کسی شخص کے مال سے مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے پہنچا ہے ۔‘‘[2]
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سیف و سنان و زوربیان دونوں سے اﷲکی راہ میں جہاد کیا کرتے تھے۔آپ نے سب سے پہلے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اوّلین شخص تھے، جن کو اﷲ کی راہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لا تعداد حوادث وآلام سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ پہلے شخص تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے سلسلہ میں اعداء دین کے سامنے سینہ سپر ہوئے۔ ہجرت و جہاد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق رہے، اس کی حد یہ ہے کہ غزوۂ بدر میں سائبان کے نیچے آپ کے سوا اور کوئی نہ تھا۔[3]
ابوسفیان نے غزوہ ٔ احد کے دن صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں دریافت کیاتھا ۔ ابوسفیان نے جب پوچھا کہ کیا محمد موجود ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا: اسے جواب نہ دو۔
پھر اس نے پوچھا کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ؟آپ نے جواب دینے سے منع کیا۔
ابوسفیان پھر بولا:کیا عمر رضی اللہ عنہ ہیں ؟ آپ نے پھر بھی جواب دینے کی اجازت نہ دی۔
ابوسفیان کہنے لگا۔ ان سب کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا تو بولے اﷲ کے دشمن ! تو جھوٹ کہتا ہے یہ سب زندہ ہیں [4]اور اللہ تعالیٰ نے
[1] صحیح بخاری ۔ کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’ سدوا الابواب ....‘‘ (ح:۳۶۵۴) صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل ابی بکر الصدیق، (حدیث:۲۳۸۲)
[2] سنن ترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب (۱۵؍۳۴)،(حدیث:۳۶۶۱)۔: سنن ابنِ ماجہ:۱؍۳۶، المقدمِۃ، باب فِی فضائِلِ أصحابِ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم، باب فضلِ أبِی بکرِ الصِدِیقِ رضِی اللّٰہ عنہ، ونصہ: ما نفعنِی مال قط ما نفعنِی مال أبِی بکر۔ قال: فبکی أبو بکر، وقال: یا رسول اللّٰہِ، ہل أنا ومالِی ِإلا لک یا رسول اللّٰہِ؟ فِی المسندِ ط۔ المعارِفِ: ۱۳؍ ۱۸۳، وصحح الشیخ أحمد شاکِر رحِمہ اللہ الحدِیث وخالف تضعِیف البوصیرِیِ لہ فِی زوائِدِہِ، وصححہ الألبانِی أیضا فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ:۵؍۱۹۰۔
[3] سیرۃ ابن ہشام(ص:۳۰۰)
[4] صحیح بخاری، کتاب المغازی۔ باب غزوۃ احد،(حدیث:۴۰۴۳۔۳۰۳۹)۔