کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 21
تو میں نے کہا : میں کبھی بھی ابو بکر رضی اللہ عنہ پر بازی نہیں لے سکتا ۔‘‘[1]
[پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس صدیق کے لیے ہے اﷲ کا رسول بس]
فصل:....کعب قرظی کی روایت اور شیعہ کا شبہ
[شبہ]: شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ محمد بن کعب القرظی روایت کرتے ہیں کہ طلحہ بن شیبہ اور حضرت عباس و علی رضی اللہ عنہم باہم فخر کرنے لگے۔
طلحہ نے کہا: میں کعبہ کا کنجی بردار ہوں ، اگر چاہوں تو کعبہ ہی میں رات بسر کرلوں ۔
عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں اگر چاہوں تو مسجد ہی میں رات بسر کرلوں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے پتہ نہیں تم لوگ کیا کہتے ہو؛ میں نے لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ رو ہو کر نماز ادا کی ہے اور میں صاحب جہاد بھی ہوں ۔اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی:
﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْجَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (التوبۃ:۱۹)
’’ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر بنا دیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے؟اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں ہوسکتے؛ بیشک اللہ تعالیٰ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتے ۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ روایت حدیث کی قابل اعتماد کتب میں موجود نہیں ، بلکہ بوجوہ اس کا کاذب ہونا ظاہر ہوتا ہے:
۱۔ اس کے جھوٹ ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ طلحہ بن شیبہ نامی کوئی شخص نہیں ۔ خادم کعبہ کا نام شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ[2] ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔
[1] البخاری ۲؍۱۲۔سنن ابی داؤد۔ کتاب الزکاۃ، باب الرخصۃ فی ذلک (ح:۱۶۷۸)، سنن الترمذی۔ کتاب المناقب (ح:۳۶۷۵)۔
[2] یہ عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ کے چچا زاد بھائی تھے جو مکہ سے سیدنا خالد بن ولید کی معیت میں عازم مدینہ ہوئے مقام’’ الہدء ۃ‘‘ میں مکہ و عسفان کے درمیان سیدنا عمرو بن العاص سے ملاقات ہوئی۔یہ تینوں حضرات بہ یک وقت دولت ِ اسلام سے مالا مال ہوئے۔(سیرۃ ابن ہشام:۴۸۴)، مستدرک حاکم:۳؍۲۹۷۔۲۹۸) شیبہ غزوۂ حنین تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ حنین میں دھوکہ دے کر سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دست ِ مبارک شیبہ کے سینے پر رکھا اور فرمایا :’’ شیطان دفع ہو‘‘ نتیجہ کے طور پر شیبہ مسلمان ہو گئے۔(سیرۃ ابن ہشام:۵۶۵) اورآپ سے مل کر کفار سے لڑے اور حوادث و آلام میں صبر و تحمل کا ثبوت دیا، جب مکہ فتح ہوا تو آپ نے کعبہ کی کنجی عثمان بن طلحہ اور ان کے چچا زاد بھائی شیبہ بن عثمان بن ابی طلحہ کو دے کر فرمایا:’’ ابوطلحہ کے بیٹو! ہمیشہ کے لیے یہ کنجی لے لو، کوئی ظالم شخص ہی تم سے یہ کنجی واپس لے گا ۔‘‘ سیرۃ ابن ہشام (ص: ۵۴۹) اسد الغابہ:(۳؍۵۹۹۔۶۰۰)کعبہ کی کنجی آج تک قبیلہ بن عبد الدار کے اسی کنبہ کے قبضہ میں چلی آتی ہے۔ ان کو ’’الشیبیین‘‘ کہا جاتا ہے۔