کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 20
کوئی نماز کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ وضو کرلے ؛ اور جس طرح یہ حکم ہے کہ جو کوئی قرآن پڑھنا چاہتا ہو‘ اسے چاہیے کہ سب سے پہلے شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لے۔ اس طرح کی مثال بہت زیادہ ہیں ۔
٭ ان آیات میں حکم شرط کے ساتھ معلق ہے ۔جب یہ شرط صرف ایک ہی آدمی میں پائی جائے تو اس کے علاوہ کسی اور انسان پر اس حکم کو بجالانا واجب نہیں ہوگا۔یہی عالم اس آیت کا بھی ہے ۔ اس لیے کہ اس کے منسوخ ہونے سے قبل کسی ایک نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی راز دارانہ بات نہیں کی سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛اس لیے اس آیت پر عمل نہ کرنے پر کسی مؤمن پر کوئی حرج باقی نہ رہا۔ پس اس طرح کی چیزیں ائمہ کی خصوصیات میں سے نہیں ہوسکتیں ۔اور نہ ہی یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خاصیت ہے۔اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ باقی لوگوں نے بخل کی وجہ سے راز داری کی بات نہ کی ؛ اس لیے کہ ایسا کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا۔ اس پر مزید یہ کہ مشورہ سے پہلے صدقہ دینے کا حکم تادیر باقی نہ رہا۔اور اس مدت میں کسی کو سرگوشی کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہ آئی۔[اور اتفاقاً حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی نے وہ درہم یا اس سے کم و بیش خرچ کرکے اس پر عمل کیا]۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ یہ حکم بعض لوگوں کے لیے خاص تھا ‘ تو اس سے لازم نہیں آتا کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماان لوگوں میں سے ہوں ۔ اور یہ ممکن بھی کیسے ہو سکتا ہے جب کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے جذبہ جودو سخا کا یہ عالم تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [غزوہ تبوک کے موقع پر] انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی تو آپ نے سارا مال اﷲ کی راہِ میں دیدیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا آدھا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا؛ انہیں کسی سرگوشی کی کوئی ضرورت ہی نہ پڑی تو پھر ان میں سے کسی ایک سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ کوئی سر گوشی کرنے سے پہلے دو یا تین درہم صدقہ کرنے سے بخل کرتا؟
زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ؛ وہ کہتے ہیں : میں نے سنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمارہے تھے :
’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم دیا۔پس اتفاق سے اس وقت میرے پاس کافی مال تھا؛میں نے کہا: اگر کوئی موقع جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جانے کا ہے تو وہ آج کا دن ہے۔ تو میں اپنے گھر کا آدھا مال لے کر آگیا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’ اے عمر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے ؟‘‘
میں نے عرض کیا : ’’اتنا ہی مال اپنے گھر والوں کے لیے بھی چھوڑ آیا ہوں ۔‘‘
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال لے کر آگئے ۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے دریافت کیا کہ اے ابو بکر ! گھر میں کیا چھوڑا؟
تو حضرت صدیق نے جواباً فرمایا: ’’ اللہ اور اس کے رسول کو گھر والوں کے لیے باقی چھوڑ دیا ہے ۔‘‘