کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 19
تیسری فصل:....اداء صدقہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انفرادیت
[شبہ]: شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ:﴿اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْابَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً﴾ (المجادلہ:۱۲) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم پیغمبر سے سرگوشی (کرنے کا ارادہ)کرو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دو۔‘‘کے بارے میں فرمایا کہ ’’ اس آیت پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔اور اس آیت میں وارد حکم سے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے اس امت پر تخفیف کردی۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]
[جواب]: عرض ہے کہ صدقہ مسلمانوں پر واجب نہ تھا، جس کو ترک کرنے سے وہ گنہگار کہلاتے۔ البتہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی راز کی بات بیان کرنا چاہتا ہو اسے صدقہ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت صرف علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کرنا چاہا اور حکم الٰہی کی تعمیل میں صدقہ ادا کیا۔[1] صدقہ کی یہ ادائیگی بعینہٖ یوں ہے جیسے حج تمتع کرنے والے پر یا جس شخص کو اداء حج سے روک دیا جائے اس پر قربانی واجب ہے۔ اسی طرح جو شخص کسی تکلیف کی بنا پر حالت احرام میں سر منڈوانے پر مجبور ہو جائے اس پر فدیہ ؛ یا روزہ ؛یاصدقہ کرناواجب ہے۔ یہ آیت حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر آپ کے پاس سے ہوا ‘ تو آپ اپنی ہانڈی کے نیچے آگ جلانے کے لیے پھونکیں مار رہے تھے ؛ اور آپ کے سر میں جؤوں کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہو رہی تھی[تو آپ کو حکم دیاگیا کہ سر کے بال منڈوا دیں اور اس کی جگہ صدقہ کردیں ]۔
٭ جیسے مریض یا مسافر کو بعد کے ایام میں روزے رکھنے کا حکم ہے ؛ اور جس طرح قسم توڑنے والے پر کفارہ واجب ہے کہ وہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے ‘ یا انہیں کپڑا پہنائے یا پھر ایک غلام کو آزاد کرے۔اور جس طرح یہ حکم ہے کہ جو
[1] مستدرک حاکم(۲؍۴۸۲)۔تفسیر ابن کثیر میں ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خود بھی یہ واقعہ بہ تفصیل مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اس آیت پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا نہ میرے بعد کوئی عمل کرسکا، میرے پاس ایک دینار تھا جسے بھناکر میں نے دس درہم لے لیے ایک درہم اللہ کے نام پر کسی مسکین کو دیدیا پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے سرگوشی کی پھر تو یہ حکم اٹھ گیا تو مجھ سے پہلے بھی کسی نے اس پر عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی اس پر عمل کرسکتا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے پوچھا کیا صدقہ کی مقدار ایک دینار مقرر کرنی چاہئے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ تو بہت ہوئی۔‘‘ فرمایا:’’ پھر آدھا دینار کہا ہر شخص کو اس کی بھی طاقت نہیں آپ نے فرمایا اچھا تم ہی بتاؤ کس قدر؟ فرمایا:’’ ایک جو برابر سونا آپ نے فرمایا واہ واہ تم تو بڑے ہی زاہد ہو، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پس میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت پر تخفیف کردی، ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے حسن غریب کہا ہے، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں مسلمان برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راز داری کرنے سے پہلے صدقہ نکالا کرتے تھے لیکن زکوۃ کے حکم نے اسے اٹھا دیا، آپ فرماتے ہیں صحابہ نے کثرت سے سوالات کرنے شروع کردیئے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دے کر آپ پر تخفیف کردی کیونکہ اب لوگوں نے سوالات چھوڑ دیئے، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کشادگی کردی اور اس حکم کو منسوخ کردیا، عکرمہ اور حسن بصری کا بھی یہی قول ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے، حضرت قتادہ اور حضرت مقاتل بھی یہی فرماتے ہیں ، حضرت قتادہ کا قول ہے کہ صرف دن کی چند ساعتوں تک یہ حکم رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ صرف میں ہی عمل کرسکا تھا اور دن کا تھوڑا ہی حصہ اس حکم کو نازل ہوئے تھا کہ منسوخ ہوگیا۔