کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 18
احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔مگر ( وہ تو صرف) اپنے اس رب کی رضا طلب کرنے کے لیے (دیتا ہے)جو سب سے بلند ہے۔ اور یقیناً عنقریب وہ راضی ہو جائے گا۔‘‘[1] ایسے ہی مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین اور احسان کے ساتھ اتباع کرنے والے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہوگیا ؛ اور ان کو یہ بشارت سنائی : ﴿وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ﴾ [التوبۃ۱۰۰] ’’وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پران کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ اس لیے ضروری ہے کہ وہ واجب اموربجالاتے ہوں اور ممنوعات سے پرہیز کرتے ہوں تب یہ رضا مندی اور اس عمل پر یہ بدلہ ملے گا۔اس وقت ان سے گناہوں کی آلودگی کا دور کیا جانا اور انہیں پاک و صاف کرنا ان کی بعض صفات میں سے ایک صفت ہوگی۔ توکملی کے نیچے چھپائے ہوئے لوگوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی اسی کی ایک قسم ہے‘ جو اللہ تعالیٰ نے سابقین اولین کی صفات بیان کی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان چادر کے نیچے چھپائے ہوئے لوگوں کے لیے ہی دعا نہیں فرمائی‘بلکہ ان کے علاوہ کئی ایک دوسرے لوگوں کے لیے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت کی دعا فرمائی ہے؛ اور بہت سارے لوگوں کے لیے جنت اور مغفرت کی دعا فرمائی ہے؛ جو کہ صرف طہارت اور آلودگی دور ہونے کی دعا سے کئی درجہ بڑھ کر ہے ۔ اس سے یہ کہیں بھی لازم نہیں آتا کہ جن کے لیے آپ نے دعا فرمائی ہو وہ سابقین اولین سے افضل ہوجائے۔ مگر کملی کے نیچے چھپائے گئے لوگوں کامعاملہ یہ ہے کہ جب طہارت حاصل کرنا اور گناہوں کی آلودگی سے دور رہنا ان پر واجب تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس فعل کے بجالانے پر ان کی مدد فرمائے ‘ تاکہ وہ [اس فعل کے ترک کی وجہ سے ] عقاب اور مذمت کے مستحق نہ ٹھہریں ؛ اور ان اوامر کے بجالانے کی مدح و ثواب کو پالیں ۔
[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت ’’ أَتْقٰی‘‘ کے اس زمرہ میں اس لیے شامل نہ تھے کہ آپ ان دنوں مال دار نہ تھے۔ آپ اس وصف سے اس وقت متصف ہوئے جب غزوہ خیبر کے بعد آپ مال و دولت سے سرفراز ہوئے۔