کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 17
’’سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ بالوں کی بنی ہوئی ایک منقوش چادر اوڑھے علی الصبح گھر سے نکلے۔ اتنے میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما آگئے تو آپ نے دونوں کو چادر کے نیچے چھپا لیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ آئے تو ان کو بھی چادر میں چھپا لیا۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾[1] ’’ بیشک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کردے اے اہل بیت ؛ اور تمہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘ ظاہر ہے کہ حدیث میں بیان کردہ وصف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت نہیں ؛ بلکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حسن و حسین رضی اللہ عنہمابھی اس میں آپ کے ساتھ شریک تھے۔ ظاہر ہے کہ عورت امامت و خلافت کی اہل نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ حدیث میں بیان کردہ فضیلت خلفاء و ائمہ کے ساتھ مختص نہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی اس ضمن میں ان کے ساتھ شریک ہیں ۔ حدیث میں صرف دعا کی گئی ہے کہ اﷲتعالیٰ ان حضرات کی آلودگی دور کرکے ان کو پاک و صاف فرمادے۔اس میں حد سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے پاکیزگی اور تقوی کی دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان سے گناہ کی آلودگی کو دور کر دے‘ اور نہیں پاک صاف کر دے۔گناہ کی آلودگی سے محفوظ رہنا مومن پر واجب ہے ‘ اور طہارت حاصل کرنے کا حکم ہر مؤمن کے لیے ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَہِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ﴾ [المائدہ] ’’ اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کرے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا ﴾ [التوبہ ۱۰۳] ’’آپ ان کے اموال سے صدقہ وصول کریں ؛ اور اس سے ان کو پاک کیجئے اور ان کا تزکیہ کیجئے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾ [البقرۃ ۲۲۲] ’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ بس زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتاہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے امر بجالانے اور نواہی سے اجتناب کی توفیق کی دعا ہے ۔ اس سے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ’’ أَتْقٰی‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے؛ قرآن مجید میں ہے : ﴿اَ لْاَتْقٰیo الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیo وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی o اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰیo وَلَسَوْفَ یَرْضٰیo﴾ [للیل ۱۷۔۲۱] ’’وہ صاحب تقویٰ جو پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال دیتا ہے۔حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی
[1] صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضائل اہل بیت النبی۔ (حدیث: ۲۴۲۴)