کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 169
پڑھنے کا حکم نہیں ۔ کیونکہ اس کے حق میں یاددھانی کا وقت ہی نماز کا وقت ہے۔ تو اس نے اپنے وقت پر ہی نماز پڑھی ہے۔ایسے ہی جب سویا ہوا انسان بیدار ہو تو وہ اپنے وقت پر ہی نماز پڑھتا ہے۔
کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے کسی ایک کے لیے جائز نہیں رکھا کہ وہ نماز کواس کے اوقات سے ہٹ کر ادا کرے ۔اور[بلا عذر] وقت سے ہٹ کر پڑھی ہوئی نماز بالکل قبول نہیں ہوتی۔ یہی حال رمضان کے روزوں کا بھی ہے ۔سنن میں صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جس نے رمضان کا ایک روزہ بھی توڑ دیا؛ اگر وہ سارا سال بھی روزے رکھے؛ تب بھی اسے کفایت نہیں کریں گے۔‘‘[1]
یہ حضرات کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ رمضان کے روزے غیر رمضان میں صرف معذور افراد سے قبول کرتے ہیں ۔ جیسے : مریض ؛ مسافر اور حائض۔ اور جس پر مہینہ مشتبہ ہو جائے؛ اور اس نے [سمجھنے کی]کوشش کے باوجود رمضان کے بعد روزہ رکھ لیا تو اللہ تعالیٰ اس کا عمل قبول فرمائیں گے؛ جان بوجھ کرروزہ چھوڑنے والے کا عمل قبول نہیں فرماتے۔
کہتے ہیں : یہ انسان جس نے اپنی بیوی سے رمضان کے دنوں میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا تھا؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قضاء کا حکم نہیں دیا؛ بلکہ اسے صرف کفارہ اداکرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں قضاء کا حکم بھی آیاہے؛ مگر ثقہ علمائے کرام رحمہم اللہ جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔[2]
ایسے ہی جس انسان نے جان بوجھ کر قے کی تھی؛ اس کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے اسے دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ مگر اس حدیث کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہونا ثابت ہے۔ اور اگر اس کا صحیح ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے؛ تو اس سے مراد وہ معذور ہوگا؛ جو عمداً قے کرنے کو جائز سمجھتا ہو۔ یا پھر وہ مریض مراد ہو جو جسے قے کرنے کی ضرورت ہو؛ تو اس نے ایسا کرلیا ہے۔ کیونکہ عادۃً عمداً قے صرف عذر کی بنا پرہی ہوتی ہے۔ ورنہ کوئی عاقل بلا ضرورت عمداً قے کو جائز نہیں سمجھتا۔ پس اس طرح قے کرنے والا اپنا ایسے ہی علاج کرنا چاہتا ہے جسے دوائی کھا کر علاج کیا جاتا ہے۔ اس انسان سے قضاء قبول ہوتی ہے؛ اور اسے اس کا حکم بھی دیا جاتا ہے۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے؛ اگرچہ اس کے مرفوع ہونے میں اختلاف ہے۔ بہرحال ہر صورت اس کا معنی
[1] البخارِیِ3؍32 ِکتاب الصومِ، باب ِإذا جامع فِی رمضان، سنن أبِی داود 2؍422 ۔کتاب الصومِ باب التغلِیظِ فِیمن أفطر عمدا، سنن الترمذی 2؍113 ِکتاب الصومِ، باب ما جا فِی الإِفطارِ متعمِدا۔
[2] انظر کلام ابنِ قدامۃ فِی المغنِی 3؍109 ؛ عن حکمِ من جامع أہلہ فِی رمضان، ورأی فقہائِ المذاہِبِ فِیہا، ورأی وجوبِ القضائِ لأِن النبِی صلی اللہ علیہِ وسلم قال لِلمجامِعِ وصم یوما مکانہ۔رواہ أبو داود بِإِسنادِہِ وابن ماجہ والأثرم، وأما الکفارۃ فتلزمہ لِلحدِیثِ المتفقِ علیہِ عن أبِی ہریرۃ ۔ وانظر ما ذکرہ الألبانِی فِی ِإرواِ الغلِیلِ 4؍88 ۔وکلامہ علی الحدِیثینِ ومخالفتہ لِابنِ تیمِیۃ فِی مسلۃِ القضائِ فإِنہ استشہد بِکلامِ ابنِ حجر فِی الفتحِ 4؍150 حیث قال: وبِمجموعِ ہذِہِ الطرقِ تعرِف أن لِہذِہِ الزِیادۃِ وہِی قول النبِیِ: وأمرہ أن یصوم یوما مکانہ أصلا۔