کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 156
ایمان ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ جو چیز مختلف اجزاء سے مرکب ہو؛ جب اس کا کوئی ایک جزء چلا جائے تو وہ ساری چیز چلی جاتی ہے۔ جیسے نماز؛ جب اس کا ایک واجب ترک کردیا جائے؛ تو ساری نماز باطل ہو جاتی ہے۔ اس اصل سے ان کی مختلف راہیں ؍ اور مختلف فرقے نکلے ہیں ۔[1] جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں : بیشک ایمان کم ہوتا اور بڑھتا ہے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: ’’ جہنم سے اس آدمی کو بھی نکالاجائے گاجس کے دل میں رائے کے دانے برابر بھی ایمان ہوگا۔‘‘[2] پس اس بنیاد پرہم کہتے ہیں : جب اس کے واجبات میں سے کوئی چیز کم ہو جاتی ہے تو کمال اورتمام باقی نہیں رہتا۔ اس لیے اس نام کی نفی اس وقت جائز ہے جب اس سے مراد کمال ہو۔ پس اس انسان پر واجب ہوتا ہے کہ اس جزء کو پورا کردے۔ اگر واجب ترک کیا ہے تو اسے بجالائے۔ اور اگرگناہ کاکام کیا ہے تو اس سے توبہ و استغفار کرے۔ اس طرح یہ انسان ان اہل ایمان میں سے ہو جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے اس ثواب محض کے مستحق ٹھہرتے ہیں جو سزا سے خالی ہو۔ ہاں اگر وہ ان میں سے کوئی واجب ترک کردے؛ یا کسی حرام کام کا ارتکاب کردے؛ تو وہ اس پر سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اور نیک کام کرنے پر ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔یہاں پر نفی مجموعہ کی ہے؛ اس کے اجزاء میں سے ہر ایک جزء کی نفی نہیں ہے۔ جیسے جب دس میں سے ایک چلا جائے تو وہ دس باقی نہیں رہتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ باقی نو بھی ختم ہوگئے ہیں ۔ تمام اعمال میں سنت ایسے ہی وارد ہوئی ہے؛ جیسے نماز وغیرہ۔ انسان جس قدر نماز درست ادا کرتا ہے؛ اس پر اسے ثواب ملے گا؛ اور جو اس میں کمی رہ جاتی ہے؛ اس پر اسے سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حتی کہ اگر انسان کی نفل نماز ہوگی تو اس سے اس کمی کا ازالہ کیا جائے گا۔ اگر اس کے ادا کردہ افعال باطل ہوتے ؛ ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہوتا ؛ تو اسے اس پر کوئی ثواب نہ ملتا۔ اور نوافل سے اس کا ازالہ نہ ہوسکتا۔ پس سنن میں روایت کردہ نماز میں خطاء کار کی حدیث اسی پر دلالت
[1] علامہ اشعری ’’مقالات اسلامیین؛ ۱؍۱۹۸ ‘‘ پر فرماتے ہیں :مرجئہ او رجہمیہ کہتے ہیں : بیشک ایمان کی تبعیض نہیں ہوسکتی۔ اور نہ ہی اہل ایمان ایمان میں ایک دوسرے پر فضیلت رکھتے ہیں ۔ مرجئہ میں سے صالحیہ کے نزدیک ایمان نہ ہی کم ہوتا ہے اور نہ ہی بڑھتا ہے۔ اور اشعری نے یہ بھی کہا ہے کہ: یونس السمری کے ساتھی ’’السمریہ ‘‘ کا خیال ہے کہ: ایمان صرف اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے سامنے جھک جانے اور تکبر سے اجتناب کرنے اور اس سے محبت کرنے کا نام ہے۔ جس انسان میں یہ خصلتیں جمع ہو جائیں ؛ وہ مؤمن ہے۔ اور اگر ان میں سے ایک خصلت بھی ترک کی تو وہ کافر جائے گا۔ [2] الحدِیث عن عبدِ اللہِ بنِ مسعود رضِی اللہ عنہ فِی: مسلِم1؍93 ِکتاب الإِیمانِ باب تحرِیمِ الِکبرِ وبیانِہِ، ولفظہ: لا یدخل النار أحد فِی قلبِہِ مِثقال حبۃِ خردل مِن ِایمان، ولا یدخل الجنۃ أحد فِی قلبِہِ مِثقال حبۃِ خردل مِن کِبرِیا۔ سننِ أبِی داود4؍84 ِکتاب اللِباسِ، باب ما جا فِی الکِبرِ، سنن ابنِ ماجہ 1؍22 ؛ المقدِمۃ باب فِی الإِیمانِ، کِتاب صِفۃِ جہنم۔ قال التِرمِذِی ہذا حدِیث حسن صحِیح، وذکرہ السیوطِی، وقال الألبانِی فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ: صحِیح وہو فِی مسندِ أحمد وسننِ النسائِیِ۔