کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 152
اگر تمام پانچ نماز سبھی گناہوں کا کفارہ بن جائیں تو جمعہ کی ضرورت باقی نہ رہے۔ لیکن گناہوں کا کفارہ مقبول نیکیاں بنتی ہیں ۔
اکثر لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کے لیے ان کی نماز کا کچھ حصہ ثواب لکھا جاتا ہے۔ پس اس قدر گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے؛ اور باقی گناہوں کی معافی کے لیے ضرورت باقی رہتی ہے۔ کئی اسناد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’ انسان سے بروز قیامت سب سے پہلا سوال اس کے اعمال میں سے نماز کے متعلق ہوگا۔اگر نماز مکمل ہوگی تو درست ؛ ورنہ کہا جائے گا؛ دیکھو کیا اس کی کوئی نفل نماز ہے ؟ اگر اس کی کوئی نفل نماز ہوگی تو اس سے فرض کو پورا کردیا جائے گا۔ پھر یہی کچھ باقی تمام اعمال کے ساتھ ہوگا۔‘‘[1]
مطلق نفل نمازوں سے فرائض کی تکمیل؛ قیامت کے دن بدلہ کے طور پر ہوگی۔پس جب وہ کچھ واجبات کو ترک کردے تو اس پر عقوبت کا مستحق ہوگا ۔ اور اسی جنس سے اگر اس کی نفل عبادت بھی ہوگی ؛ تو وہ فرض کے قائم مقام ہو جائے گی۔اور اسے کوئی سزا نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کا ثواب کم ہوگا؛ اور نفل عبادت ہوگی تو وہ فرض کے قائم مقام ہوکر اس ثواب کو مکمل کردے گی۔ پس اس کو دنیا میں حکم دیا جاتا ہے کہ جو کام اس نے ناقص کیا ہو؛ اس سے جتنا ممکن ہوسکتا ہو؛ اسے دوہرائے۔ یا اس کا ازالہ کسی ایسی ممکنہ چیز سے کردے۔ جیسے نماز میں سہو کے دو سجدے۔ حج کے واجبات رہ جانے پر دم جبران ۔ او رجیسے صدقہ فطر جو کہ لغو اور بہودہ کلام سے طہارت کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ یہ اس لیے کہ جب اس کے لیے واجب کو ادا کرنا ممکن ہو تواس پر واجب کا ادا کرنا متعین ہوجاتا ہے۔ اس کے بغیر وہ اپنی ذمہ داری سے بری نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یہی کام اس سے مطلوب ہوتا ہے۔ جیسے کہ اگر اس نے کوئی کام کیا ہی نہ ہو تو اس پر اس کام کا کرنا متعین ہوجاتاہے۔ بخلاف اس کے کہ اگر اس کے لیے کسی کام کا کرنا اس کے مقرر وقت میں متعذر ہوجائے۔ تو اس صورت میں نیکیوں کے علاوہ کوئی دوسری چیز باقی نہیں رہتی ۔[یعنی نفلی نیکیاں کرکے اس کمی کو پورا کرے۔]
[ترک واجب کا مسئلہ ]
اسی لیے جمہور علمائے کرام رحمہم اللہ کا مسلک یہ ہے کہ: جو کوئی نماز کے واجبات میں سے کوئی واجب جان بوجھ کر چھوڑ دے؛ تو جب تک اس کے لیے ممکن ہے؛ وہ اس نماز کو دوبارہ ادا کرے گا؛ یعنی اس کے وقت میں ہی دوبارہ پڑھے
[1] سنن الترمذی 1؍258؛ کتاب الصلاِۃ، باب ما جاء أن أول ما یحاسب بِہِ العبد یوم القِیامۃِ الصلاۃ۔ وقال التِرمِذِی: حدِیث أبِی ہریرۃ حدِیث حسن غرِیب مِن ہذا الوجہِ، وقد روِی ہذا الحدِیث مِن غیرِ ہذا الوجہِ عن أبِی ہریرۃ، والحدِیث فِی سننِ أبِی داود1؍317 ؛ کِتاب الصلاۃِ، باب قولِ النبِیِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم: کل صلاۃ لا یتِمہا صاحِبہا، سنن النسائِیِ 1؍187؛ کتاب الصلاِۃ، باب المحاسِبۃِ علی الصلاِۃ، سنن ابنِ ماجہ 1؍458 ِ کتاب ِإقامۃِ الصلاِۃ والسنِۃ فِیہا، باب ما جاء فِی أولِ ما یحاسب بِہِ العبد الصلاۃ، المسند ط۔ المعارِفِ 15؍19 ۔ 26 وقال أحمد شاکِر رحِمہ اللہ: وإِسنادہ صحِیح، وتکلم علی الحدِیثِ، والحدِیث فِی المسندِ فِی مواضِع أخری کثِیرۃ۔