کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 15
(۱)....اے متقی(قاتل علی) کی وہ ضرب جو قابل تحسین تھی جس سے اس کا مقصد صرف رضائے الٰہی کا حصول تھا۔ (۲)....میں کبھی کبھی اسے یاد کرتا ہوں تو یوں خیال کرتا ہوں کہ سب مخلوقات سے اﷲکے نزدیک اس کا اعمال نامہ زیادہ بھرپور تھا۔ ایک سنی شاعر نے اس کے مقابلہ میں یہ اشعار کہے: ۱....یَا ضَرْبَۃً مِّنْ شَقِیٍّ مَا اَرَادَ بِہَا اِلَّا لِیَبْلُغَ مِنْ ذِی الْعَرشِ خُسْرَانًا ۲....اِنِّیْ لَاَذْکُرُہٗ یَوْمًا فَاَلْعَنُہٗ لَعْنًا وَّاَلْعَنُ عِمْرَانَ ابْنَ حِطَّانًا (۱) ہائے اس بدبخت کی وہ ضرب جس سے اس کا مقصد اﷲسے خسارہ پانے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔(۲) میں بعض اوقات یاد کرکے اس پر لعنت بھیجتا ہوں اور عمران بن حطان پر بھی لعنت بھیجتا ہوں ۔(جس نے مذکورہ بالااشعار کہے)۔ [خارجی فرقے اور ان کے متعلق فتوی] یہ خوارج تقریباً اٹھارہ فرقے تھے۔ جیسے ازارقہ[1]:نافع بن ازرق کے اتباع کار۔ نجدات: [2]نجدۃ الحروری کے اتباع کار۔
[1] ازارقہ ؛ ابو راشد نافع بن الازرق بن قیس الحنفی البکری الوائلی ؛ اہل بصرہ میں سے تھا۔ شروع شروع میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی صحبت میں رہا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بلوائیوں میں شامل ہوگیا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور دوستی کا اظہار کرنے لگا۔ حتی کہ جب آپ نے حروراء کی طرف خروج کیا۔ یہ ایک بہادر اور لڑاکااور انتہائی سرکش خارجی تھا۔ پھر سن ۶۵ ہجری میں قتل ہوا۔ فرقہ ازارقہ حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہمادونوں کو اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہماکو کافر کہتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کو بھی کافر کہتے ہیں جو ان جنگوں میں شریک نہیں ہوئے۔ اور مزید ان کا عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہ کے مرتکب لوگ کافر اور دائمی جہنمی ہیں ۔ اور ان کے مخالفین کے مقبوضہ علاقے دار الکفرہیں ۔مزید دیکھیں: لِسان المِیزانِ:۶؍۱۴۴، تارِیخ الطبرِیِ:۵؍۵۲۸، الأعلام:۸؍۳۱۵، مقالاتِ الإِسلامِیِین :۱؍۱۵۷، المِلل والنِحل:۱؍۱۰۹، الفرق بین الفِرقِ، ص:۵۰،۵۲؛ التبصِیر فِی الدِینِ، ص: الخطط لِلمقرِیزِی: ۲؍۳۵۴۔ [2] انہیں نجدیہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نجدہ بن عامر حنفی کے اتباع کار ہیں ۔ یہ انسان ۳۶ہجری میں پیدا ہوا؛ اور ۶۱ ہجری میں وفات ہوئی۔ بظاہر یہ بھی نافع بن ازرق کا پیروکار تھا۔پھر اس کی مخالفت میں علیحدہ سے ایک مذہب کی بنیاد رکھ لی۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کے ایام میں بحرین میں اس کی مستقل حکومت تھی؛ اور اسے امیر المؤمنین کہا جاتا تھا۔ پانچ سال تک اس کی حکومت رہی ؛ پھر اسے قتل کردیا گیا۔ علامہ اشعری کہتے ہیں : نجدات بھی دوسرے تمام خوارج کی طرح ہیں ۔ان کا کہناہے : ہر کبیرہ گناہ کفر ہے۔ اور کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کبیرہ گناہ کے مرتکب کو دائمی عذاب دیں گے۔ اور ان کا خیال ہے کہ جو کوئی صغیرہ گناہ پر اصرار کرتا ہے؛ وہ مشرک ہے۔ او رجس نے کبیرہ گناہ کیا؛ اور وہ اس پر مصر نہ ہو؛ تو وہ مسلمان ہے ۔ نجدات کہتے ہیں : لوگوں کے لیے کسی کو حاکم بنانا ضروری نہیں ہے۔ بس ان کے باہمی معاملات عدل و انصاف اور حق پر مبنی ہونے چاہییں ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : لِسان المِیزانِ۶؍۱۴۸، شذراتِ الذہبِ:۱؍۷۶ ، الکامِل لِابنِ الأثِیرِ:۴؍۷۸، الأعلام:۸؍۳۲۴، مقالاتِ الإِسلامِیِین: ۱؍۱۵۶، الفرق بین الفِرقِ ص:۵۴، المِلل والنِحل:۱؍۱۱۰، التبصر فِی الدِینِ ص ۳۱، الفِصل فِی المِلل والنِحل:۵؍۵۳، الخطط لِلمقرِیزِیِ: ۲؍۳۵۴۔