کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 14
خوارج جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے اور آپ پر لعنت بھیجتے ہیں ان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجتے تھے اور آپ کے خلاف صف آراء بھی ہوئے؛ ان میں سے اصحاب معاویہ اور بنی مروان بھی تھے۔ یہ سب لوگ مقربہ الاسلام تھے اور دینی شرائع و احکام پر عمل پیرا تھے۔ یہ نماز کی پابندی کرتے،زکوٰۃ ادا کرتے ، روزے رکھتے، زیارت بیت اﷲ سے مشرف ہوتے۔اللہ اور اس کے رسول کے حلال کردہ کو حلال سمجھتے اور محرمات کو حرام سمجھتے تھے۔ ان میں ظاہری کفر کا کوئی نشان نہیں پایا جاتاتھا۔ بخلاف ازیں ان میں اسلامی شعائر وشرائع برملا پائے جاتے تھے اور وہ ان کی تعظیم بجا لاتے تھے ان باتوں سے ہر وہ شخص آگاہ ہے جو اسلامی حالات سے باخبر ہے۔ان حالات کے باوصف یہ دعویٰ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ سب مخالفین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منزہ سمجھتے ہیں اور اصحاب ثلاثہ کو نہیں ۔
بخلاف ازیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اعوان و انصار جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ناپسند کرتے تھے؛ شیعان علی رضی اللہ عنہ سے بوجوہ افضل ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو منزہ سمجھنے والے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح کرنے والے؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر قدح کرنے والوں سے بڑھ کر دین داراور افضل ہیں ۔ اگر اہل سنت کو معاونین و محبین علی رضی اللہ عنہ کی فہرست سے الگ کر لیا جائے تو ان کو چاہنے والوں میں ایک بھی ایسا نہ ہو گا جو آپ کے مخالف فرقوں یعنی خوارج، امویہ اور مروانیہ کا مقابلہ کر سکے۔اس لیے کہ اعداء علی رضی اللہ عنہ کے متعدد فرقے ہیں ۔ یہ بات کسی سے پوشید نہیں کہ اعداء علی رضی اللہ عنہ میں سب سے بڑے خوارج ہیں ؛جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کافر و مرتد تھے؛ اور تقرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے ان کو قتل کرنا حلال تھا ۔ ایک خارجی شاعر عمران بن حطان کہتا ہے:
۱....یَا ضَرْبَۃً مِّنْ تَقِیٍّ مَّا اَرَادَ بِہَا اِلَّا لِیَبْلُغَ مِنْ ذِی الْعَرْش رِضْوَانًا
۲....اِنِّیْ لَاذْکُرُہٗ یَوْمًا فَاَحْسِبُہُ اَوْفَی الْبَرِیَّۃ عِنْدَاللّٰہِ مِیْزَانًا
[1]
[1] ۷۔ اس باب میں بیان کیا جائے گا کہ امام ’’ماکان و ما یکون‘‘ کا علم رکھتے ہیں اور کوئی بات ان سے پوشیدہ نہیں ہوتی۔
۸۔اس بات کا باب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ علم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے۔
۹۔ اس بات کا باب کہ اگر ائمہ سے کوئی بات پوشیدہ رکھی جائے تو وہ اسے ظاہر کر دیتے ہیں ۔
۱۰۔ ہر امام جانتا ہے کہ اس کے بعد کون شخص منصب امامت پر فائز ہو گا۔
۱۱۔ اس بات کا باب کہ ائمہ کے منہ سے جو بات نکلتی ہے وہ حق ہوتی ہے نیز جو بات ان کے ہاں سے نہیں آئی وہ باطل ہے۔
۱۲۔ اس بات کا باب کہ یہ کائنات ائمہ کی ملک ہے۔
یہ اس کتاب کے عنوانات ہیں جو شیعہ کی نہایت ہی قابل اعتماد کتاب ہے۔ یہ عقائد و افکار شیعہ میں اس وقت رائج تھے جب غلو کو ضروریات دین میں شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ جہاں تک ضروریات دین میں شمار کیے جانے والے غلو کا تعلق ہے تو اسے ان تراجم میں تلاش کرنا چاہئے جو اعداء دین روافض نے اپنے قلم سے تحریر کیے۔ مثلاً تحفہ اثنا عشریہ میں ،ص:۱۰۰ پر دیکھیے شیعہ کا یہ عقیدہ کہ سیدنا علی اولوالعزم نبیوں کو چھوڑ کر سب انبیاء و رسل سے افضل تھے۔ آگے چل کر صفحہ:۱۰۲، پر لکھا ہے کہ ائمہ انبیاء سے بڑے عالم ہوتے ہیں اس لیے ان کا مرتبہ بھی بلند تر ہوتا ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ:۱۰۳،پر شیعہ کا یہ عقیدہ تحریر کیا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اوّلین وآخرین سب سے افضل تھے۔ کتاب مذکور کے صفحہ:۱۱۴ پر لکھا ہے کہ شیعہ کے نزدیک سیدنا علی کی جانب وحی کی جاتی تھی اور آپ اس کی آؤاز سنتے تھے۔ (تحفہ اثنا عشریہ)