کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 13
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرنے والے خوارج حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے دوستی رکھتے اور اظہارِ خوشنودی کرتے ہیں ۔ فرقہ مروانیہ والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ظالم قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ آپ خلیفہ نہ تھے۔ دوسری جانب وہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے دوستی رکھتے ہیں حالانکہ وہ ان کے اقارب میں سے نہیں ۔ پھر یہ بات کہاں تک قرین صدق و ثواب ہے کہ موافق و مخالف سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منزہ قرار دیتے ہیں اور اصحاب ثلاثہ کو نہیں ۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکو منزہ قرار دینے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مدّاحین کی نسبت اکثرو افضل اور اعظم ہیں ۔
بخلاف ازیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فسق اور عصیان سے متہم کرنے والے فرقے مسلمانوں میں بڑے معروف ہیں ۔ وہ روافض کی نسبت زیادہ عالم اور دین دار بھی ہیں جب کہ روافض ان کے مقابلہ میں کیا بلحاظ علم اور کیاباعتبار قوت و شوکت ضعیف و ناتواں ہیں ۔ روافض نہ ہی اپنے حریفوں کے خلاف حجت قائم کرکے ان کا منہ بند کر سکتے ہیں نہ قوت بازو کو کام میں لاکر انھیں شکست دے سکتے ہیں ۔ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح وارد کرتے ہیں اور ان کو کافر وظالم تک قرار دینے سے احتراز نہیں کرتے، ان میں کوئی گروہ ایسا نہیں جواسلام سے منحرف و برگشتہ ہو گیا ہو۔
اس کے عین برخلاف جو لوگ اصحاب ثلاثہ کو مورد طعن بناتے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں ۔ مثلاً فرقہ غالیہ نصیریہ والے الوہیت علی رضی اللہ عنہ کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اسماعیلیہ ملحدین ان نصیریہ سے بھی گئے گزرے ہیں ۔ اور غالی شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نبی قرار دیتے ہیں ۔[1] بیشک یہ سب کافر اور مرتد ہیں ۔ اﷲ و رسول کے ساتھ ان کا کفر کسی عالم دین سے مخفی نہیں ۔ ظاہر ہے کہ جو شخص کسی انسان کی الوہیت کا قائل ہویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبی سمجھتاہو اس کا کافر ہونا ہر اس شخص پر واضح ہے جو دینی علم سے تھوڑی سی واقفیت بھی رکھتا ہو۔[2]
[1] مشہور شیعہ عالم المامقانی کا قول ہے کہ جن عقائد وافکار کی بنا پر قدیم شیعہ کوغالی کہا جاتا تھا وہ اب ضروریات دین میں شمار ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر میں تقیہ کیے بغیر جو شیعہ واشگاف الفاظ میں اپنے عقیدے کا اظہار کرے گا۔ تو اس میں اور متقدمین غالی شیعہ میں کچھ فرق نہ ہوگا۔ اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو اسے ضروریات ِ مذہب سے منحرف تصور کیا جائے گا۔
[2] کسی شخص کو نبی قرار دینے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اسے نبی کہہ کر پکارا جائے بلکہ اسے صفات انبیاء سے متصف کرنا بھی اسے نبی قرار دینے کے لیے کافی ہے۔ علامہ کلینی نے جو شیعہ کا امام بخاری سمجھا جاتا ہے۔ شیعہ کی عظیم ترین کتاب’’ الکافی‘‘ میں جس طرح عنوانات قائم کیے ہیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے:
۱۔ اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ ائمہ امورِ الٰہی کے مالک اور اس کے علم کا خزانہ ہیں ۔ ۲۔باب : ائمہ زمین کا ستون ہیں ۔
۳۔ اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ ائمہ کے یہاں سب کتابیں ہوتی ہیں اور اختلاف الألسنہ (زبانوں کے اختلاف) کے باوجود وہ ان کے مضامین سے آگاہ ہوتے ہیں ۔
۴۔ اس بات کا باب کہ قرآن کو ائمہ نے جمع کیا ہے۔
۵۔ اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ائمہ سب علوم سے واقف ہوتے ہیں ۔
۶۔ اس بات کا باب کہ اماموں کو اپنی موت کا وقت معلوم ہوتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے فوت ہوتے ہیں ۔ (