کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 125
بایں ہمہ جب بعض سلاطین نے ان کے خلاف جنگ آزما ہونے کے متعلق مجھ سے فتویٰ چاہا تو میں نے اس کا تفصیلی جواب دیا ۔ چنانچہ ہم وہاں پہنچے اور میرے پاس ان کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔ ہم نے انکے ساتھ کئی مرتبہ مناظرہ کیا جس کی تفصیلات طوالت کی موجب ہوں گی۔ جب مسلمانوں نے وہ علاقہ فتح کر لیا اور شیعہ ہر طرح سے ان کے قابومیں آگئے تو میں نے شیعہ کو قتل کرنے اور قیدی بنانے سے روکا۔ ہم نے ان کو متفرق مقامات پر بھیج دیا تاکہ وہ ایک
[1]
[1] وہ مدافعت پر ڈٹا رہا۔ ربیع الثانی کے نصف میں تاتاریوں نے اپنے ہم نوا معاونین ارمن دکرج وغیرہ سے مل کر لوٹ مار کا آغاز کیا۔ انھوں نے ’’ جامع التوبہ‘‘ کو نذر آتش کردیااور’’ الصالحیہ‘‘ کو لوٹ کر اس کے مدارس پر دھاوا بولا اور جو علماء وہاں موجود تھے سب کو تہ تیغ کردیا۔ الصالحیہ کے رہنے والوں میں سے چار سو افراد کو قتل کیا اور چار ہزار کوقیدی بنا لیا۔ جن میں الشیخ ابو عمر کے خاندان کے ستر افراد بھی تھے۔ شیخ ابو عمر امام الموفّق مصنف المغنی والمقنع کے بھائی تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۲۰؍ ربیع الثانی کو بروز جمعرات تاتاری سلطان کو نصیحت کرنے اور ظلم و جور سے روکنے کے لیے نکلے مگر اس کے وزیر سعد الدین اور مشیر حکومت مسلمانی نے جو ایک یہودی زادہ تھا۔ شیخ کو اس سے باز رکھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوٹ مار کا بازار گرم رہا اور تاتاریوں نے دس ہزار سے زیادہ گھوڑے مسلمانوں سے چھین لیے۔ شہریوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے ۔ جامع اموی میں قلعہ شکن آلات نصب کردیے تاکہ وہاں سے قلعہ پر پتھر پھینکے جائیں ۔ تاتاریوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کے دروازے بند کردیے اور آس پاس کے بازاروں کو لوٹنا شروع کردیا۔ مورخہ۱۹؍جمادی الاولیٰ کو غازان دمشق میں بولائی کے زیر قیادت ساٹھ ہزار جنگجو چھوڑ کر عراق کے راستہ واپس لوٹ گیا۔
تاتاری قلعہ کو فتح نہ کر سکے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب غازان اور اس کا نائب قطلوشاہ وہاں سے چلے گئے تو قلعہ والوں نے مسجد پر حملہ کرکے قلعہ شکن آلات کو توڑ پھوڑ ڈالا اور تاتاریوں کے بعض معاونین کے ساتھ واپس قلعہ میں لوٹ آئے۔ تاتاریوں کے ان احباب و انصار کا سرخیل محمد بن محمد بن احمد بن المرتضیٰ تھا اس کو وہ شریف القمی کے نام سے یاد کرتے تھے۔قتل و غارت کا سلسلہ ہنوز جاری تھا۔علم الدین البیرزالی نے ابن المنجا سے نقل کیاہے کہ دمشق سے جو مال غازان کے خزانہ میں پہنچا، اس کی تعداد چھتیس لاکھ درہم تھی۔ ٹیکس اور رشوت اس میں شمار نہیں ۔شیخ المشائخ کو اس میں سے چھ لاکھ درہم ملے تھے؛ بدنصیب خواجہ طوسی کے حصہ میں ایک لاکھ درہم آئے۔ بدکاری و شراب نوشی کا دور چلنے لگا ۔ سیف الدین قیجق کی یومیہ آمدنی ایک ہزار درہم تھی۔ مدارس کے اوقاف میں سے وہ جو کچھ چھینا کرتا تھا وہ اس پر مزید ہے۔تاتاری سپہ سالار بولائی کے خیمہ میں بہت سے قیدی تھے۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ آغاز رجب میں بولائی کے یہاں گئے۔ اورقیدیوں کو رہا کرنے کے بارے میں اس کے ساتھ بات چیت کی۔بولائی نے تعمیل ارشاد کردی۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے تین دن وہاں قیام کیا اور پھر واپس لوٹ آئے۔ اسی اثنا میں یہ خبر پہنچی کہ مصری لشکر عازم دمشق ہے۔ چنانچہ بولائی غازان کی فوج کو لے کر دمشق سے چل دیا اور وہاں کوئی حاکم بھی موجود نہ رہا۔ بولائی کے کوچ کی خبر سن کر امیر ارجواش قلعہ سے نکلا اور شیخ الاسلام رحمہ اللہ ابن تیمیہ کی مدد سے فصیل شہر کی حفاظت کے لیے ایک فوج مرتب کی۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ ہر رات فصیل کے اردگرد چکر لگاتے۔ اور آیات قرآنیہ تلاوت کرکے لوگوں کو جہاد و قتال اور صبر و شکر کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔ سو دن تک خطبہ میں غازان کا نام لیا جاتا تھا۔ اب پھر سے خطبہ میں سلطان مصر کا نام لیا جانے لگا۔
شیخ الاسلام نے شہر میں جو شراب خانے اور قحبہ خانے تھے سب بند کرادیے۔ نائب دمشق جمال الدین اقوش الافرم شامی لشکر سمیت مصر سے واپس لوٹا اس کے بعد باقی لشکر بھی مصر سے دمشق پہنچ گیا۔ یہ عظیم مصیبت وسط شعبان ۶۹۹ھ کو ختم ہوئی۔