کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 124
اس پہاڑ پر رہنے والے بعض شیعہ نصاریٰ کے علم بردار تھے۔ ان سے جب دریافت کیا جاتا کہ اہل اسلام اور نصاریٰ میں سے بہتر کون ہے؟ تو وہ کہتے: ’’ نصارٰی‘‘ پھر پوچھا جاتا تمہارا حشر کن کیساتھ ہوگا؟ تو وہ کہتے: ’’نصاریٰ کے ساتھ۔‘‘
انہوں نے مسلمانوں کے بعض شہر بھی ان نصاری کے زیر تسلط دے دیے تھے۔
[1]
[1] النبک کے نزدیک اس سے ملے۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے غازان کے ساتھ بڑے موثر اور پر زور طریقے سے بات چیت کی۔ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ(۱۴؍۷) نیز (۱۴؍۸۹) پر مشہور صالح و عابد شخص ابو عبد اﷲ محمد بن البالسی (۶۵۰۔۷۱۸) کی زبانی یہ بات چیت تفصیلاً ذکر کی ہے۔ البالسی ان علماء و قضاۃ میں شامل تھے جو شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے ہمراہ غازان سے ملنے گئے تھے۔ البالسی کا بیان ہے کہ شیخ الاسلام نے غازان کو مخاطب کرکے کہا جب کہ ترجمان ساتھ ساتھ آپ کی گفتگو کا ترجمہ کرتا جاتا تھا۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا:’’تم اپنے کو مسلمان کہتے ہو۔ میں نے سنا ہے کہ تمہارے ساتھ موذن؛ قاضی اور امام بھی ہیں ، پھر تم بلاد اسلامیہ پر کیوں حملہ آور ہوئے؟ تمہارے باپ دادا کافر تھے تاہم معاہدہ کرنے کے بعد انھوں نے اسلامی ممالک پر حملہ نہیں کیا تھا۔ مگر تم نے عہد باندھ کر بدعہدی کی اوراپنی بات کو پورا نہ کیا۔‘‘
ابو عبد اﷲ البالسی بیان کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام نے غازان، قطلوشاہ اور بولائی کے ساتھ جو گفتگو کی اس میں کئی نشیب و فراز آئے۔ مگر شیخ نے حق و صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور نہ اﷲکے سوا کسی سے ہراساں ہوئے۔ غازان نے ان علماء کو کھانا پیش کیا ۔ ابن تیمیہ کے سوا سب نے کھانا کھایا جب آپ سے وجہ پوچھی گئی تو فرمایا۔ میں یہ کھانا کیوں کر کھا سکتا ہوں ؟ یہ سب لوگوں سے چھینا ہوا مال ہے اور تم نے ناجائز طور پر لوگوں کے درخت کاٹ کر اسے پکایا ہے۔ غازان نے جب شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اﷲ! اگر غازان تیرے دین کی سربلندی اور نشرو اشاعت کے لیے جنگ کر رہا ہے تو اسے غلبہ عطا کر اور اسے عباد و بلاد کا مالک بنا دے اور اگر حرص اقتدار اور شہرت کے لیے یہ جنگ آزما ہے اور اسلام اور اہل اسلام کو رسوا کرنا چاہتا ہے تو اسے ذلیل کر اسے برباد کردے اوراس کی جڑ کاٹ ڈال۔‘‘
غازان ہاتھ اٹھا کر آپ کی دعا پر آمین کہتا جا رہا تھا۔ عبد اﷲ البالسی کا بیان ہے کہ یہ دعا سن کر ہم اپنے کپڑے سمیٹ رہے تھے کہ جب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو قتل کیا جائے تو ان کے خون سے ہمارے کپڑے آلودہ نہ ہو جائیں ۔ جب غازان کے یہاں سے نکلے تو قاضی القضاۃ نجم الدین صصری نے کہا:’’آپ ہمیں بھی برباد کرنے لگے تھے اور آپ اپنے کو بھی، اﷲ کی قسم! اب ہم آپ کے ساتھ نہیں چلیں گے۔‘‘ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا:’’ اﷲ کی قسم! میں بھی آپ کے ساتھ نہیں جانا چاہتا۔‘‘ چنانچہ یہ سب علماء ایک جماعت کی صورت میں چل دیے اور شیخ الاسلام رحمہ اللہ چند اصحاب کے ساتھ تنہا رہ گئے، جب غازان کے خواص و امراء کو پتہ چلا تو وہ آپ کی دعا سے برکت حاصل کرنے کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ عازم دمشق تھے اور یہ امراء آ آ کر آپ کے ساتھ ملتے جا رہے تھے۔ چنانچہ جب دمشق پہنچے تو تین صد سو ار آپ کے ہم رکاب تھے۔ شیخ البالسی کا بیان ہے کہ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ جو علماء آپ کی رفاقت سے الگ ہو گئے تھے جب راستہ میں پہنچے تو تاتاریوں کی ایک جماعت نے ان سب کا مال و متاع چھین لیا۔ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ(۱۴؍۷) پر لکھتے ہیں :
’’شیخ الاسلام کی گفتگو سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا اور دمشق میں امن و امان کا فرمان جاری ہو گیا۔ امن کا فرمان جاری کرنے کے دوسرے روز تاتاریوں نے مدرسہ قیمریہ میں ایک دربار منعقد کیا جس کا نام انھوں نے ’’ دیوان الاستخلاص‘‘ رکھا۔ اس میں تاتاریوں نے یہ حکم جاری کیا کہ لوگوں نے جو گھوڑے اور ہتھیار اور مال و متاع چھپا کر رکھا ہوا ہے وہ سب لا کر حاضر کردیں ۔ سیف الدین قیجق المنصوری جو قبل ازیں تاتاریوں سے جا ملا تھا حاکم شام قرار پایا۔ المنصوری نے قلعہ دار کو قلعہ حوالہ کرنے کا حکم جاری کیامگر اس نے انکار کردیا اور (