کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 123
’’ تم لوگوں کے حق میں سب سے زیادہ مفید ہو۔‘‘
چونکہ اہل سنت سب لوگوں سے چیدہ وبر گزیدہ ہیں اس لیے وہ صحیح معنی میں اس آیت کے مصداق ہیں ۔وہی لوگوں کے لیے سب سے زیادہ بہتر [اور ان کے خیر خواہ] ہیں ۔
سب لوگ جانتے ہیں کہ ساحل شام پر ایک بڑا پہاڑ تھا۔جس پر ہزاروں شیعہ بودو باش رکھتے تھے۔ وہ لوگوں کا خون بہاتے اور ان کا مال چھین لیا کرتے تھے۔انہوں نے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیااور ان کے اموال چھین لیے۔ جس سال مسلمانوں نے تاتاری بادشاہ غازان کے ہاتھوں شکست کھائی تواس پہاڑ[1] پر رہنے والے شیعہ نے مسلمانوں کے گھوڑے، اسلحہ اور قیدیوں کو پکڑ کر کفار اور قبرص کے عیسائیوں کے پاس فروخت کردیا ۔ جو سپاہی وہاں سے گزرتا اس کو پکڑ لیتے۔ یہ مسلمانوں کے حق میں سب دشمنوں سے زیادہ ضرر رساں تھے۔‘‘ [2]
[1] اس پہاڑ کا نام الجرود کیردان تھا۔ جب غازان نامی بادشاہ دمشق پر حملہ آور ہوا تو اس پہاڑ کے باشندوں اور ان شیعہ نے جو یہاں سکونت رکھتے تھے اس موقع کو غنیمت خیال کیا۔ چنانچہ تاتاریوں سے شکست کھا کر جو سپاہی یا عام لوگ وہاں سے گزرتے یہ ان کو قتل کر دیتے اور ان کا سازوسامان اور گھوڑے وغیرہ چھین لیتے۔ انھوں نے برملا اپنے عقائد فاسدہ اور کفر و ضلالت کا اظہار کرنا شروع کردیا ۔جب اﷲ تعالیٰ نے بلاد شام کو تاتار کے ظالمانہ چنگل سے رہائی بخشی تو نائب السلطنت جمال الدین اقوش الافرم دمشق سے لشکر لے کر اس پہاڑ کی جانب روانہ ہوا جیسا کہ البدایہ والنہایہ(۱۴؍۱۲) پر لکھا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لاتعداد اتباع و متعلقین کو لے کر اس پہاڑ کی جانب چل دیے۔ وہاں پہنچے تو بہت سے شیعہ سردار آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر تائب ہوئے۔ اور اس سے بڑا فائدہ پہنچا۔ شیعہ نے لوٹا ہوا مال سب واپس کردیا اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ امن و امان سے رہنے کا عہد باندھا۔ الافرم اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی روانگی کا مذکورہ واقعہ ۲۰ شوال کو پیش آیا اور ۱۳؍ ذیقعد ۶۹۹ھ بروز اتوار واپس لوٹے۔
[2] غازان کا حملہ ۶۹۹ھ میں ہوا تھا۔ غازان المتوفی (۶۷۰۔۷۰۳) شیعہ سلطان خدابندہ المتوفی(۶۸۰۔۷۱۶) کا بھائی تھا۔ اسی خدابندہ نامی بادشاہ کے لیے ابن المطہر شیعہ نے وہ کتاب لکھی جس کی تردید شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے منہاج السنۃ میں کی ہے۔ شیخ الاسلام نے یہاں جس واقعہ کی جانب اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دمشق ان دنوں حکومت مصرکے ماتحت تھا ۔ مصر پر ان دنوں سلطان الناصر محمد بن قلاوون کی حکومت تھی۔ جس نے المنصور لاجین کو ۶۹۸ھ میں قتل کرکے مقام کرک کی جلا وطنی سے نجات پائی تھی۔ بلادشام میں سلطان مصر کا نائب ان دنوں اقوش الافرم تھا۔ اقوش کا پیشرو سیف الدین قیجق المنصوری ایران میں جاکر تاتاری بادشاہ غازان سے مل گیاتھا۔ ۶۹۸ھ کو یہ خبر پہنچی کہ غازان ایران سے حلب کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے۔ سلطان مصر محمد بن قلاوون جب اس سے آگاہ ہوا تو وہ ماہ محرم۶۹۹ھ میں مصر سے غزہ پہنچ کر دوماہ تک غازان کی نقل و حرکت کا منتظر رہا۔
ماہ ربیع الاول ۶۹۹ھ مطابق دسمبر۱۲۱۹ء میں سلطان الناصر محمد بن قلاوون شدید سردی کے موسم میں دمشق پہنچا۔ سلطان نے رجال و اموال کی فراہمی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی یہاں تک کہ یتیموں کا مال بھی قرض لے لیا۔ آخر کار مورخہ ۲۷؍ ربیع الاوّل ۶۹۹ھ وادی سلمیہ میں پہنچ کر تاتاریوں سے ملا، وہاں گھمسان کا رن پڑا۔ سلطان محمد بن قلاوون نے شکست کھائی اور غازان نے آگے بڑھ کر بعلبک پر قبضہ کر لیا۔
دمشق کے امراء و خواص سلطان الناصر کی پیروی میں مصر پہنچے اور دمشق حکام و ولاۃ سے خالی رہ گیا۔ ادھر اہل شام نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر التجا کی کہ وہ غازان کے پاس جا کر قوم کے لیے امان طلب کریں ۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے یہ درخواست قبول کر لی۔ آپ ڈرتے تھے مبادا تاتاری بدعہدی کریں اس لیے آپ نے امراء رجواش کو مل کر تاکید کی کہ قلعہ کے اندرونی انتظامات اچھی طرح مضبوط کیے جائیں اور تاتاریوں کو اسی وقت قلعہ میں داخل ہونے کی اجازت دیں جب وہ ایک ایک پتھر کرکے قلعہ کو مسمارنہ کردیں ۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ اہل شام کی رفاقت میں بروز سوموار ۳؍ ربیع الاوّل ۶۹۹ھ کو غازان کی ملاقات کے لیے نکلے اور مقام (