کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 121
اس کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ مسلمانوں کو زک پہنچے۔ اس نے اسلامی لشکر کے سپاہیوں کی تنخواہیں بند کر دیں ۔ اور انہیں ہر طرح سے کمزور کیا۔اور انہیں تاتاریوں سے جنگ کرنے سے روکتا رہتا تھا۔ضرر رسانی کے لیے وہ طرح طرح کے حیلے اختیار کیا کرتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کافر تاتاری بغداد میں داخل ہو گئے اور انھوں نے دس لاکھ یا اس سے کم و بیش مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسلام میں تاتاری کفار کی جنگ سے بڑھ کر کوئی لڑائی نہیں لڑی گئی۔ تاتاریوں نے ہاشمیوں کو تہ تیغ کرکے عباسی اور غیر عباسی سب خواتین کو قیدی بنا لیا۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ جو شخص کفار کو مسلمانوں پر مسلط کرکے انھیں قتل کرتا اور مسلم مستورات کو قیدی بنانے میں مدد دیتا ہے کیا ایسا شخص محب آل رسول ہو سکتا ہے؟ شیعہ حجاج بن یوسف ثقفی پر یہ بہتان لگاتے ہیں کہ اس نے سادات کے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ حالانکہ سفاک ہونے کے باوصف حجاج نے کسی ہاشمی کو قتل نہیں کیا تھا۔ البتہ بنی ہاشم کے علاوہ دیگر عرب شرفاء کو اس نے ضرور قتل کیا تھا۔ حجاج نے ایک ہاشمی خاتون بنت عبداﷲ بن جعفر سے نکاح کیا تھا، مگر بنو امیہ نے مجبور کرکے بدیں وجہ تفریق کرادی کہ حجاج ایک شریف ہاشمی سیدزادی خاتون کا ہمسرو برابر نہیں ہو سکتا۔ ایسے ہی بلاد شام میں جو رافضی پائے جاتے ہیں ‘ ان میں سے جنہیں قوت و طاقت حاصل تھی وہ مسلمانوں کے خلاف مشرکین و نصاری اور اہلِ کتاب کفار کی مدد کیا کرتے تھے۔اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل کرتے ‘ انہیں قیدی بناتے اور ان کے اموال پر قبضہ کرلیتے۔ جب کہ اس کے برعکس خوارج نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی۔ بلکہ وہ لوگوں سے جنگیں لڑا کرتے تھے۔ نہ ہی وہ کفار کو مسلمانوں پر مسلط کرنے میں ان کی مدد کرتے اور نہ ہی اہل کتاب یہو د و نصاری اور مشرکین کے ساتھ کوئی تعاون کرتے۔ رافضیوں میں زندیق ؛ ملحد اور منافقین شامل ہوگئے تھے جیسے اسماعیلیہ ؛ نصیریہ وغیرہ۔اور ان کے علاوہ وہ لوگ بھی رافضیوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے جو خوارج کے لشکر میں داخل نہ ہوسکے تھے۔اس لیے کہ خوارج بہت عبادت گزار اور اہل ورع لوگ ہوا کرتے تھے۔یہ بالکل ویسے ہی تھے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں خبر [1]
[1] جب لوگ خلیفہ کی رفاقت میں ہلاکو کے یہاں پہنچے تو اس نے سب کو تہ تیغ کرنے کا حکم دیا پھر لشکر نے شہرمیں داخل ہو کر قتلِ عام کا بازار گرم کیا۔ مسلسل چالیس دن تک قتل و غارت جاری رہا۔ کہا گیا ہے کہ ہلاکونے جب مقتولوں کو شمار کرنے کا حکم دیا تو وہ دس لاکھ اسی ہزار نکلے۔ جو مقتول شمار نہ کیے جا سکے ان کی تعداد اس سے کئی گنا زائد تھی۔اللہ کا دشمن ابن علقمی اپنے مقاصد میں ناکام رہا۔ اور شیعہ حکومت قائم کرنے سے متعلق اس کی آرزو بر نہ آئی۔ خیانت پیشہ لوگ ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھا کرتے ہیں ، اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ۔ ہلاکو اسے حقیر سمجھنے لگا اور اس کی حیثیت تاتاریوں میں ایک غلام سے زیادہ نہ تھی بعد ازاں ابن العلقمی یہ مصرعہ گنگنایا کرتاتھا: و جَرَی الْقَضائُ بِعَکْسِ مَا اَقَلْتُہٗ(تدبیر کند بندہ تقدیر کندخندہ) پھر افسردگی کی حالت میں جہنم واصل ہوا۔ شیعہ مورخ بڑے فخر یہ انداز میں اس عظیم حادثہ کا ذکر کرتا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کا ساتھ دینے کے خوگر ہیں اور مسلمانوں کو بغض و عناد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔‘‘