کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد6،5) - صفحہ 120
دشمن کفار کا ساتھ دیا۔ جیسا کہ کافر تاتاری بادشاہ چنگیز خاں کے زمانہ میں ہوا۔رافضیوں نے مسلمانوں کے خلاف اس کی بھر پوری مدد کی تھی۔
ایسے ہی جب چنگیز خاں کا پوتا ہلاکو خاں خراسان اور عراق و شام کے علاقہ میں آیاتو شیعہ نے اعلانیہ اور خفیہ ہر طرح سے اس کی مدد کی۔ یہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے اور کسی کو اس سے مجال انکار نہیں ؛ اور نہ ہی کسی پر کوئی بات پوشیدہ رہ گئی ہے۔عراق اور خراسان میں ظاہری وباطنی طور پر شیعہ نے کھل کر ان کا ساتھ دیا۔
اس وقت [1]خلیفہ بغداد کا وزیر ابن علقمی[2] بھی شیعہ تھا’’ وہ ہمیشہ خلیفہ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتا رہتا۔‘‘
[1] شہرہ آفاق شیعہ مورخ مرزا محمد باقر خوانساری نے اپنی کتاب روضات الجنات طبع ثانی کے صفحہ ۵۷۸،پر نصیر الدین طوسی کے حالات زندگی میں لکھا ہے: خواجہ نصیر الدین کی زندگی کا مشہور ترین واقعہ یہ ہے کہ وہ عظیم تاتاری سلطان اور اپنے دَور کے پر شوکت و حشمت فاتح ہلاکو خاں بن تولی خاں بن چنگیز خان کی ملاقات کے لیے ایران پہنچا اور پھر وہاں سے اس کے موید و منصور لشکر کی معیت میں ارشاد عباد، اصلاح بلاد اور قطع فساد کے لیے بغدا د پہنچا۔ اس کا مقصد بنی عباس کی حکومت کو ختم کرنا اور ان کے اتباع کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ چنانچہ خواجہ طوسی اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور بغداد میں عباسیوں کے ناپاک خون کی ندیاں بہادیں ۔‘‘ مذکورہ بالا اقتباس میں شیعہ مورخ نے شیخ روافض خواجہ طوسی کے مشہور سفاک ہلاکو خاں کے یہاں آنے کو ارشاداً للعباد و اصلاحاً للبلاد قرار دیا ہے ۔ وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ اس آمد کا مقصد وحید یہ تھا کہ سب سے بڑے اسلامی دارالخلافہ میں خون کی ندیاں بہا دی جائیں ۔ مرزا محمد باقر اس بات پر فخر و مباہات کا اظہار کرتا ہے کہ ہلاکو خاں نے سفاکی و خونریزی کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ بلکہ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جو مسلمان اس کی سفاکی کا شکار ہوئے وہ سب جہنمی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بت پرست ہلاکو اور اس کا رافضی ہادی و مرشد خواجہ طوسی دونوں قطعی جنتی ہیں ۔ اس سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بیان کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ ہم قبل ازیں شیعہ مورخ کے قول کی جانب اشارہ کر چکے ہیں ، اب ضرورت کے پیش نظر تفصیلاً اس کا اقتباس نقل کیا گیا ہے۔مزیددیکھیں :
فِی تارِیخِ ابنِ الأثِیرِ:۱۲؍۱۳۷؛ البِدایِۃ والنِہایۃِ:۱۳؍۸۶؛ وقد توفِی جنکیِزخان سن:۶۲۴ھ۔ وانظر عنہ: البِدایۃ والنِہایۃ: ۱۳؍۱۱۷؛ دائِرۃ المعارِفِ الإِسلامِیِ مقالۃ بارتولد۔
[2] اس کا نام محمد بن احمد بغدادی ہے۔ یہ ابن علقمی کے نام سے مشہور تھا۔ یہ ۶۵۶ھ میں فوت ہوا۔ نوجوانی میں یہ شیعہ ادباء میں شمار ہوتا تھا۔ اہل سنت نے اس کے بارے میں تساہل سے کام لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مناصب جلیلہ طے کرتے کرتے خلافت عباسیہ میں وزارت کے عہدہ تک پہنچا اور چودہ سال تک اس پر فائز رہا۔ آخری عباسی خلیفہ المستعصم نے ابن العلقمی پر اس قدر اعتماد کیا کہ جملہ امور سلطنت اسے تفویض کردیے۔ جب صنم پرست ہلاکو خاں کا لشکر بلاد ایران میں داخل ہوا تو ابن العلقمی نے اسے بغداد پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا، ابن العلقمی کو امید تھی کہ خلافت عباسیہ کے سقوط کے بعد ہلاکو خاں کسی شیعہ کو امام یا خلیفہ مقرر کرے گا۔ ہلا کو خاں قوم تاتار کرج کے دو لاکھ سپاہیوں کو لے کر بغداد پر حملہ آور ہوا۔ ابن علقمی نے خلیفہ مستعصم کو دھوکہ دے کر ہلاکو خاں کے کام کو بڑی حدتک آسان کردیا۔ جب ہلاکو نے اپنی فوج کو بغداد کی شرقی و غربی جانب اتار دیا۔ ابن علقمی نے خلیفہ سے صلح کی سلسلہ جنبانی کے لیے خلیفہ سے ہلاکو خاں کو ملنے کی اجازت مانگی۔ جب ابن علقمی ہلاکو کو اپنی وفا شعاری اور خلافت عباسیہ سے خیانت کاری کا یقین دلا چکا تو خلیفہ کے پاس لوٹ کر واپس آیا اور کہنے لگا: ہلاکو اپنی بیٹی کا نکاح خلیفہ کے بیٹے ابوبکر سے کرنا چاہتا ہے ۔نیز ہلاکو کی خواہش ہے کہ وہ سلجوق سلاطین کی طرح خلیفہ کے زیر اثر رہے۔ خلیفہ علماء و رؤسا اور اعیان حکومت کی معیت میں بزعم خود اپنے بیٹے کو بیاہنے کے لیے ہلاکو کی جانب چل دیا۔ (